1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افریقہ امریکا سربراہی اجلاس: مفادات کا تحفظ

کشور مصطفیٰ4 اگست 2014

واشنگٹن میں آج سے امریکا اورافریقی ممالک کا اجلاس شروع ہو رہا ہے یہ اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس ہے جس میں بہت بڑی تعداد میں افریقی ممالک کے سربراہان شرکت کر رہے ہیں۔ اس میں تجارتی اور سلامتی امور کو مرکزی اہمیت حاصل ہو گی۔

https://p.dw.com/p/1CoPm
تصویر: JIM WATSON/AFP/Getty Images

واشنگٹن ڈی سی یوں تو امریکی اور عالمی سیاست کا ایک اہم مرکز ہے ہی تاہم اس شہر میں اجلاسوں اور کانفرنسوں کا انعقاد بھی بہت ہوتا ہے۔ آج سے شروع ہونے والی افریقی ممالک اور امریکا کی سمٹ کے لیے خصوصی تیاریاں کی گئی ہیں۔ عوامی آمد ورفت کا معمول کا نظام معطل کر دیا گیا ہے۔ شہر میں ہنگامی حالت کا سا سماں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے واشنگٹن ڈی سی میں کبھی بھی اتنی بڑی تعداد میں افریقی ممالک کے سربراہان مذاکرات کے لیے اکھٹا نہیں ہوئے تھے۔ تین روز تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں 50 افریقی ممالک کے سیاسی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما کی میزبانی میں ہونے والے اس اجلاس میں افریقہ میں پائے جانے والے انتہا پسند گروپوں کے بارے میں بات چیت کو مرکزی اہمیت حاصل ہو گی اس کے علاوہ امریکا قدرتی ذخائر سے مالا مال بر اعظم افریقہ میں سرمایہ کاری کے جدید ترین مواقع کی تسخیر بھی کرنا چاہتا ہے۔ باراک اوباما نے ایک سال قبل جنوبی افریقہ کے دورے پر کیپ ٹاؤن میں امریکا اور افریقہ کے مابین قریبی تعلقات کے ایک نئے باب کے آغاز کا تصور پیش کیا تھا۔

مضبوط تعلقات سازی

امریکی میڈیا میں ایک عرصے سے امریکا کی براعظم افریقہ میں دلچسپی اور مفادات کو مضبوط بنانے کے موضوع پر بحث جاری ہے۔ خاص طور سے اس خطے میں چینی اور بھارتی کمپنیوں کی مقابلے کی دوڑ کا موضوع زیر بحث ہے۔ تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ان دونوں ایشیائی ممالک کی افریقہ میں سرمایہ کاری کا رجحان امریکا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے موثر اقدامات میں سے ایک آج سے شروع ہونے والی کانفرنس بھی ہے۔ اس میں زیادہ تر اُن ممالک کے سربراہان مدعو ہیں جن کے ساتھ امریکا کے ایک عرصے سے استوار ہیں تاہم امریکا انہیں مزید مضبوط بنانا چاہتا ہے۔ تاہم ان ممالک کی فہرست میں صدر رابرٹ موگابے کا ملک زمبابوے شامل نہیں ہے جس پر ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے مغربی دنیا نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ اس کے علاوہ ایریٹریا، سوڈان اور مرکزی افریقی جمہوریہ کے سربراہان کو مدعو نہیں کیا گیا ہے جبکہ گزشتہ ہفتے سیرا لیون اور لائبیریا نے حالیہ ایبولا وائرس کی وباء کے سبب واشنگٹن کے اجلاس میں شرکت سے معذرت کر لی تھی۔

Ebola Westafrika
ایبولا وائرس کا پھیلاؤ امریکا کے میڈیا میں بھی مرکزی موضوع بنتا جا رہا ہےتصویر: Pius Utomi Ekpei/AFP/Getty Images

تجارت اور سرمایہ کاری

اجلاس میں ایبولا وائرس کے پھیلاؤ،افریقی ممالک میں اسلامی انتہا پسند گروپ بوکو حرام کے خلاف جنگ کے علاوہ آپسندہ نسل کے لیے تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ اس موقع پر بزنس فورم کا انعقاد ہو گا جس میں 300 کمپنیوں کے نمائندے شرکت کریں گے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کی تنقید

انسانی حقوق کے تحفظ کے اداروں نے واشنگٹن میں ہونے والے اس اجلاس کے ایجنڈا پر سخت اعتراض کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس میں مرکزی اہمیت تجارت اور سرمایہ کاری کو حاصل ہے اور بہت کم وقت افریقی ممالک میں اقلیتی گروپوں کی صورتحال کو دیا جائے گا۔ غیرسرکاری تنظیم گلوبل رائیٹس سے منسلک ہم جنس پرست اور اپنی جنس تبدیل کروا لینے والے افراد کے ترجمان کارلوس کویساڈا کے بقول،" میں اس اجلاس سے کوئی زیادہ توقعات وابستہ نہیں کر رہا ہوں۔ افریقی ممالک میں آمر صدور کی تعداد کافی زیادہ ہے جبکہ انسانی حقوق سے متعلق بے شمار مسائل پائے جاتے ہیں۔ مذاکرات بند دروازوں کے پیچھے کیے جائیں گے۔ جب تک کھل کر عوامی سطح پر ان موضوعات پر بحث نہیں ہوتی تب تک بات چیت لاحاصل ہے" ۔

USA-Afrika-Gipfel 2014
گلوبل رائیٹس کے ترجمان کارلوس کویساڈاتصویر: DW/S. Broll

اُدھر واشنگٹن میں قائم ہیومن رائٹس واچ کے دفتر کی ڈائریکٹر سارہ مارگون کہتی ہیں،" اس اجلاس میں انسانی حقوق کے اداروں کو شامل نہ کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ سول سوسائٹی کا ایک فورم موجود ہے تاہم اس میں افریقی ممالک کے ریاستی سربراہان حصہ نہیں لیں گے۔ اس طرح ایک نادر موقع ضائع ہو جائے گا، غیر سرکاری اداروں کے نمائندوں اور حکومتی سربراہان کو قریب لانے کا" ۔

اُدھر ماہرین کا کہنا ہے کہ افریقہ میں عسکریت پسند گروپوں کا مقابلہ کرنے کے لیے واشنگٹن افریقی یونین کی طرح کی کثیرالقومی فورس کی حمایت کرنا چاہے گا جو امریکا کے نقطہ نظر سے قومی فوج سے زیادہ شفاف اور موثر ثابت ہو سکتی ہے۔