1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسکولوں کو پشاور حملے کے ہلاک شدگان سے موسوم کرنے کا فیصلہ

مقبول ملک6 مارچ 2015

پاکستان میں درجنوں سرکاری اسکولوں کے ندم بدل کر انہیں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان عسکریت پسندوں کے حملے میں ہلاک ہونے والوں سے موسوم کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس دسمبر میں اس حملے میں 153 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

https://p.dw.com/p/1EmvV
آرمی پبلک اسکول کے ڈیڑھ سو سے زائد ہلاک شدگان میں اکثریت بچوں کی تھیتصویر: AFP/Getty Images/A Majeed

پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے جمعہ چھ مارچ کی شام ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ صوبائی وزیر تعلیم عاطف خان کے بقول صوبے بھر میں مجموعی طور پر 107 اسکولوں کے نام بدل کر ان افراد کے ناموں پر رکھ دیے جائیں گے، جو 16 دسمبر 2014ء کے روز آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔

یہ دہشت گردانہ حملہ پاکستانی طالبان کی کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے چھ مسلح عسکریت پسندوں نے کیا تھا اور اس خونریز واقعے میں مجموعی طور پر 153 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثریت اس اسکول کے طلبہ کی تھی۔

Reporter besuchen die Schule in Peschawar 17.12.2014
تصویر: AFP/Getty Images/A Majeed

اس حملے کے بعد سے پاکستان میں حکومت اور سکیورٹی فورسز کی طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی سوچ مزید پختہ ہوئی ہے اور خاص طور پر پاکستانی قبائلی علاقوں میں افغان سرحد کے قریب دہشت گردوں کے خلاف بھرپور فوجی آپریشن بھی کیے جا رہے ہیں۔

اس بارے میں خیبر پختونخوا کے وزیر تعلیم عاطف خان نے بتایا، ’’پورے صوبے میں 107 اسکولوں کو اس حملے میں ہلاک ہونے والے طلبہ سے منسوب کر دیا جائے گا۔ ہم نہ تو کبھی ان طلبہ کو بھولیں گے اور نہ ہی ان کی قربانیوں کو۔‘‘

پشاور کے اس دہشت گردانہ حملے کی ذمے داری پاکستانی طالبان نے قبول کر لی تھی۔ اس حملے کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مولانا فضل اللہ نے کہا تھا کہ یہ کارروائی پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ملکی سکیورٹی فورسز کی طرف سے عسکریت پسندوں کے خلاف مسلح آپریشن شروع کیے جانے کے ردعمل میں کی گئی تھی۔

پشاور کے اس اسکول پر حملے میں مارے جانے والے ایک 15 سالہ طالب علم شیر شاہ کے والد محمد طفیل خٹک نے آج روئٹرز کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’میں نے اس حملے میں اپنا بیٹا کھو دیا تھا۔ لیکن آج مجھے ایک اچھی خبر سننے کو ملی ہے۔‘‘

محمد طفیل خٹک کے مطابق ان کا آرمی پبلک اسکول میں زیر تعلیم بیٹا، جو دوسرے بہت سے طلبہ کے ساتھ اس دہشت گردی میں ہلاک ہوا، بڑا ہو کر صحافی بننا چاہتا تھا تاکہ اپنی تحریروں کے ذریعے مثبت انداز میں رائے عامہ پر اثر انداز ہو سکے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید