1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسکنڈے نیوین صحافی اور کارٹونسٹ، آزادیٴ اظہار کی بھاری قیمت

مقبول ملک20 فروری 2015

گالیاں، گولیاں اور کلہاڑیوں سے حملے، کئی اسکنڈے نیوین صحافی اور کارٹونسٹ شدت پسند جہادیوں کی طرف سے نفرت کے باوجود آزادیٴ اظہار کے حق کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں، چاہے انہیں مسلسل پولیس کی حفاظت میں ہی زندگی کیوں نہ گزارنی پڑے۔

https://p.dw.com/p/1Ef84
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb

شمالی یورپ کے ان صحافیوں میں سے سب سے نمایاں سویڈن کے 68 سالہ کارٹونسٹ لارس وِلکس ہیں، جن کے بنائے ہوئے ایک خاکے نے سن 2007 میں مسلم دنیا میں ایک طوفان کھڑا کر دیا تھا۔ لارس وِلکس کا بنایا ہوا یہ خاکہ پیغمبر اسلام کا تھا۔ یہ سویڈش کارٹونسٹ اب تک مسلح حملوں کے متعدد ناکام منصوبوں کا ٹارگٹ بن چکے ہیں۔

وِلکس پر تازہ ترین حملہ ابھی چند روز قبل ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کے ایک ثقافتی مرکز میں کیا گیا۔ اس واقعے میں ایک مسلح حملہ آور نے کوپن ہیگن کے اس ثقافتی مرکز پر اندھا دھند فائرنگ کی لیکن لارس وِلکس ایک بار پھر زندہ بچ گئے۔ یہ حملہ توہین مذہب کے موضوع پر ہونے والی ایک ایسی کانفرنس کے موقع پر کیا گیا، جس میں اسکنڈے نیویا کے یہ متنازعہ کارٹونسٹ مہمان مقرر کے طور پر شامل تھے۔

Lars Vilks Karikaturist
لارس وِلکستصویر: picture-alliance/dpa

لارس وِلکس اسکنڈے نیویا کے ان چار باشندوں میں سے ایک ہیں، جن کے نام دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کی تیار کردہ اس کے دشمنوں کی ایک فہرست میں شامل ہیں۔ گیارہ ناموں پر مشتمل اس فہرست کو القاعدہ نے اپنی باقاعدہ ’ہِٹ لسٹ‘ قرار دے رکھا ہے۔ کوپن ہیگن میں حالیہ حملے کے تناظر میں لارس وِلکس نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو اسی ہفتے دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اس نئے پر تشدد واقعے کے باوجود کوئی بھی شے انہیں عوامی سطح پر گفتگو سے نہیں روک سکتی۔

انہوں نے کہا، ’’میرا ہار مان لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ سوال صرف سکیورٹی کا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی عوامی اجتماع میں بولنا مناسب نہ ہو۔ ابھی میں خود بھی نہیں جانتا۔ لیکن اگر ایسا ہوا تو یہ ایک المیہ ہو گا۔‘‘ لارس وِلکس سن 2010ء سے مسلسل پولیس کی حفاظت میں زندگی گزار رہے ہیں۔

کوپن ہیگن میں حملے کے بعد سکیورٹی کے خدشات کی وجہ سے انہیں ایک نامعلوم مقام پر پہنچا دیا گیا، جہاں وہ آئندہ بھی اپنا کام کرتے رہیں گے۔ اے ایف پی کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا، ’’میں ایک فائٹر ہوں، جو اب تک کئی طرح کے حالات کا سامنا کر چکا ہے۔‘‘

شمالی یورپ میں اسکنڈے نیویا کے خطے کو آزاد صحافت کی حدود میں متنازعہ توسیع کی وجہ سے اسلام پسندوں کی دھمکیوں کا سامنا کرتے ایک عشرہ ہو گیا ہے۔ یہ دوطرفہ جنگ اس وقت شروع ہوئی، جب ڈنمارک کے روزنامے ژیلانڈز پوسٹن Jyllands-Posten نے 2005ء میں پیغمبر اسلام کے 12 ایسے متنازعہ خاکے شائع کیے، جنہیں ملسم دنیا نے انتہائی توہین آمیز جانا اور یوں مسلسمانوں نے ان خاکوں کے خلاف عالمی سطح پر احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے۔

Dänemark Cartoonist Kurt Westergaard
کُرٹ وَیسڑگارڈتصویر: AP

ان خاکوں میں سے سب سے متنازعہ اسکیچ وہ تھا، جس میں پیغمبر اسلام کو سر پر ایک ایسی پگڑی پہنے ہوئے دکھایا گیا تھا، جس میں ایک بم رکھا تھا۔ یہ خاکہ ڈنمارک کے متنازعہ کارٹونسٹ کُرٹ وَیسڑگارڈ نے بنایا تھا۔ اس وقت وَیسٹرگارڈ کی عمر 80 برس ہے۔ یہ 12 خاکے بعد ازاں کئی دوسرے اخبارات اور جرائد نے بھی شائع کیے تھے، جن میں فرانسیسی جریدہ ’شارلی ایبڈو‘ بھی شامل تھا۔ ژیلانڈز پوسٹن ڈنمارک کا ایک کثیر الاشاعت روزنامہ ہے، جس میں ان خاکوں کی پہلی مرتبہ اشاعت کے ذمے دار اس کے سابق چیف ایڈیٹر کارسٹن جَسٹے اور سابق کلچرل ایڈیٹر فلیمنگ روز تھے۔

ڈنمارک کے ان تینوں شہریوں اور سویڈن کے لارس وِلکس کے نام 2013ء میں اسلام پسندوں کے جریدے Inspire میں شائع ہونے والی 11 افراد کی اس لسٹ میں شامل تھے، جسے عنوان دیا گیا تھا: ’’اسلام کے خلاف جرائم کی وجہ سے زندہ یا مردہ کسی بھی حالت میں مطلوب۔‘‘ اس فہرست میں شامل دیگر ناموں میں سے ایک برطانوی مصنف سلمان رشدی کا بھی ہے اور ایک نام فرانسیسی جریدے شارلی ایبڈو کے کارٹونسٹ اشٹیفان شاربونیئر کا بھی ہے۔ شاربونیئر ان 12 افراد میں شامل تھے، جنہیں مسلح جہادیوں نے گزشتہ مہینے پیرس میں شارلی ایبڈو کے دفتر پر حملے میں ہلاک کر دیا تھا۔

ڈینش کارٹونسٹ وَیسٹرگارڈ کو بھی کئی مرتبہ حملوں کا ٹارگٹ بنایا جا چکا ہے۔ ان میں سے ایک حملہ 2010ء میں کلہاڑے سے مسلح ایک صومالی باشندے نے کیا تھا۔ اس حملے میں وَیسٹرگارڈ اس لیے بچ گئے تھے کہ وہ بھاگ کر اپنے ’ہائی سکیورٹی‘ باتھ روم میں چھپ گئے تھے۔ اب 80 سالہ وَیسٹرگارڈ اور 67 سالہ جَسٹے زیادہ تر عوام کی نظروں سے دور ہی رہتے ہیں۔ لارس وِلکس سویڈن میں اسلام پر اپنا تنقیدی کام ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سویڈن میں مذہب پر طنز کرنا اتنا زیادہ عام نہیں ہے جتنا کہ چند دیگر یورپی ملکوں میں۔