1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ازبک عسکریت پسندوں کے شیعہ مخالف تنظیموں سے روابط، نئے حملوں کی منصوبہ بندی

عبد الغنی کاکڑ، کوئٹہ19 جون 2014

اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کی پاکستانی طالبان کے ساتھ ساتھ سُنی شدت پسند تنظیموں لشکر جھنگوی، جیش الاسلام اور جیش العمر کی ساتھ بھی گہرے روابط ہیں۔ اس تنظیم کے متعدد جنگجو بلوچستان پہنچ چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1CM2d
تصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

پاکستان کے اعلیٰ انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے کاؤنٹر ٹیررزم ونگ کی اس خفیہ رپورٹ میں حکومت کو یہ تجویز پیش کی گئی کہ وہ ملک میں اپنی قومی سلامتی کے حوالے سے بننے والی پالیسی کا ازسر نو جائزہ لیتے ہوئے اس غیر ملکی دہشت گرد گروہ آئی ایم یو کے ممکنہ دہشت گرد حملوں کو ناکام بنانے کے لیے ٹھوس حکمت عملی مرتب کرے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کی پاکستانی طالبان کے ساتھ ساتھ سُنی شدت پسند تنظیموں لشکر جھنگوی، جیش الاسلام اور جیش العمر کی ساتھ بھی گہرے روابط ہیں اور یہ تنظیمیں نئے حملوں میں اپنے مشترکہ اہداف کو نشانہ بنا سکتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق شمالی وزیرستان میں آپریشن سے قبل ہی( آئی ایم یو ) سے منسلک شدت پسندوں کی ایک بڑی تعداد وانا اور وزیرستان سے منسلک بلوچستان کے علاقے ژوب اور دیگر علاقوں میں داخل ہو گئے تھی، جہاں سے وہ خفیہ راستوں سے ہوتے ہوئے مقامی شدت پسندوں کےٹھکانوں تک پہنچے۔

دفاعی امور کے سینئر تجزیہ کار جنرل ( ر) طلعت مسعود کے بقول آئی ایم یو نامی ازبک شدت پسند تنظیم پاکستان کی داخلی سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے اور یہ لوگ اپنے مقاصد کے لیے اپنی سرگرمیاں بڑھا رہے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ’’یہ لوگ پاکستان کو سخت نقصان پہنچا رہے ہیں۔ وہ ایک سوچ مسلط کرنا چاہتے ہیں، اپنے طرز حکومت کے ذریعے اور ان کی یہ کوشش ہے کہ وہ وزیرستان سے نکل کر ملک کے دیگر حصوں، خاص کر بلوچستان میں ایسی تخریبی کارروائیاں کریں، جس سے پاکستانی حکومت اور خاص کر فوج پر سکیورٹی دباؤ میں اضافہ ہو۔ اس طریقے سے ان کی ریاست کو کمزور کرنے کی جو مہم ہے، وہ جاری رہے۔‘‘

سکیورٹی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے بھی آئی ایم یو کی ان سرگرمیوں کو ازبک شدت پسندوں کی نئی حکمت عملی سے تعبیر کیا، ’’ازبک شدت پسند تنظیم کے ہمراہ دیگر مختلف تنظیمیں بھی لڑ رہی ہے اور وہ یہ سمجھتی ہیں کہ جب تک وہ اپنی کارروائیوں کے دائرہ کار کو دیگر صوبوں تک نہیں بڑھائیں گی تو شاید حکومت کے رویے میں تبدیلی نہ آئے۔ اسی لیے وہ کوشش کریں گے کہ وہ اپنے معاملات کو وسعت دیں، لیکن یہاں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ان کی کتنی صلاحیت ہے کہ آیا وہ مین لینڈ اور بڑے شہروں میں جا کر یہ کارروائیاں کر سکتے ہیں۔‘‘

یاد رہے کہ یہ ازبک شدت پسند تنظیم جمعہ نغامی کی قیادت میں گیارہ ستمبر 2001ء سے پہلے بھی سرگرم رہی ہے اور 2005ء میں ازبک حکومت کی طرف سے فرغانہ کی وادی میں ایک ہزار لوگوں کے قتل عام کے بعد اس تنظیم میں ہزاروں لوگ بھرتی ہو گئے تھے۔

اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کو بھی القاعدہ کی طرح 2001ء میں وسطی ایشیا کے ساتھ ملنے والی افغان سرحد کے پاس اپنے قدم جمانے کا موقع ملا تھا اور اس تنظیم کی پاکستان کے شمالی علاقوں میں بھی کئی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔