1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’آئی ایس‘ کو کون روکے گا؟ ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

رائنر زولش / عدنان اسحاق17 جولائی 2014

ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار رائنر زولش کے خیال میں اسد کا خود کو دہشت گردی کے خلاف ایک مضبوط فصیل کے طور پر پیش کرنا مضحکہ خیز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اسلامک اسٹیٹ کو نہ روکا گیا تو وہ اپنا دائرہ مزید وسیع کرتے جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/1CeTb
تصویر: Ammar Mohammed

مشرق وسطٰی تنازعات میں گھرا ہوا ہے۔ اسرائیل غزہ پر بمباری کر رہا ہے، حماس کی طرف سے اسرائیل پر راکٹ داے جا رہے ہیں، اور اسی دوران دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ ’ آئی ایس‘ شام اور عراق کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے میں مصروف ہے۔ تبصرہ نگار رائنر زولش کا کہنا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے دہشت گرد اپنے زیر قبضہ علاقوں میں ہر رکاوٹ کو زبردستی ہٹا رہے ہیں اور اس کے لیے لوگوں کو قتل بھی کیا جا رہا ہے۔ زولش کہتے ہیں کہ اگر اسلامک اسٹیٹ کو نہ روکا گیا تو وہ لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کا اپنا دائرہ مزید وسیع کرتے جائیں گے۔

سوال یہ ہے کہ یہ کرے گا کون؟ عراقی فوج یہ ثابت کر چکی ہے کہ نہ تو ان کے پاس مناسب ہتھیار اور تربیت ہے اور نہ آئی ایس کو روکنے کی اخلاقی جرات۔ عراقی فوج نے موصل شہر کی باگ ڈور بغیر لڑے آئی ایس کے حوالے کر دی تھی۔ عراقی فوج کے مقابلے میں کرد اور شیعہ ملیشیا زیادہ منظم ہیں۔

Deutsche Welle Rainer Sollich Arabische Redaktion
اگر اسلامک اسٹیٹ کو نہ روکا گیا تو وہ لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کا اپنا دائرہ مزید وسیع کرتے جائیں گے، رائنر زولشتصویر: DW/P. Henriksen

رائنر زولش کہتے ہیں کہ اسلامک اسٹیٹ کو روکنے والا کون ہو سکتا ہے؟ اس بارے میں مشرق وسطی امور کے چند مغربی ماہرین کے علاوہ کوئی بھی بات نہیں کر رہا۔ وہ کہتے ہیں غیر معمولی صورتحال یا مسائل کو حل کرنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان حالات میں مغربی ممالک عالمی سطح پر تنہا ملک شام سے اتحاد کر سکتے ہیں۔ ان کے بقول شامی صدر بشارالاسد خود کو سنی شدت پسندی کے خلاف ایک فصیل سے تعبیر کرتے ہیں۔

ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار زولش کے بقول اس سلسلے میں مصر ایک مثال ہے۔ امریکا اور مصر کے تعلقات ایک مرتبہ پھر بحال ہو گئے ہیں اور اب واشنگٹن میں مصری صدر عبدالفتح السیسی کوکوئی بھی ملکی فوج کے سابق سربراہ کے طور پر نہیں دیکھتا اور نہ ہی کوئی اس بارےمیں بات کرتا ہے کہ السیسی جمہوری اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ تھے یا انہوں نے آزادی اظہار اور انسانی حقوق کو پامال کیا۔ واشنگٹن کی نظر میں ان کی اہمیت اسرائیل اور حماس کے مابین ایک ثالث سے بہت بڑھ کر ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ امریکا کو مشرق وسطی میں ساتھیوں کی ضرورت ہے۔ رائنز زولش کے خیال میں مغربی ممالک اس خطے میں اپنی مرضی سے ساتھی تلاش نہیں کر سکتے۔ سعودی عرب اور مصر پر شدید انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں۔تاہم اس کے باوجود یہ دونوں ممالک دمشق حکومت کی طرح گزشتہ کئی سالوں سے اپنے ہی شہروں پر بمباری نہیں کر رہے۔ برطانیہ کے نئے وزیر خارجہ فلپ ہیمونڈ کہہ چکے ہیں کہ آئی ایس کے معاملے میں بشارالاسد سے کسی قسم کے معاہدے کا امکان نہیں ہے۔