1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

73 فیصد عالمی آبادی کا ’سماجی تحفظ‘ ناکافی

Helle Jeppesen / امجد علی3 جون 2014

بین الاقوامی ادارہء محنت ILO نے ’سماجی تحفظ سے متعلق عالمی رپورٹ‘ جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دنیا کے 73 فیصد باشندوں کے پاس ’سماجی تحفظ‘ کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان کی بڑی تعداد کا تعلق ترقی پذیر ملکوں سے ہے۔

https://p.dw.com/p/1CBEu
تصویر: DW

اگر کوئی شخص ملازمت سے محروم ہو جاتا ہے، بیمار پڑ جاتا ہے یا عمر زیادہ ہو جانے کی بناء پر مزید کام نہیں کر سکتا تو یہ اُس کا حق ہے کہ اُسے سماجی تحفظ کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ بین الاقوامی ادارہء محنت آئی ایل او نے منگل تین جون کو جنیوا میں اپنی رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ 7.2 ارب نفوس پر مشتمل عالمی آبادی میں سے 5.3 ارب انسانوں کے پاس ’سماجی تحفظ‘ کی سہولتیں یا تو سرے سے ہیں ہی نہیں اور اگر ہیں بھی تو وہ بہت ناکافی ہیں۔ یہ تقریباً 73 فیصد انسان ترقی پذیر ملکوں میں رہ رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا کی صرف 27 فیصد آبادی ایسی ہے، جسے عمر بھر سماجی تحفظ کی سہولیتں حاصل رہتی ہیں۔

کرسٹینا بیہرنٹ کا تعلق آئی ایل او سے ہے اور وہ اُن شخصیات میں شامل ہیں، جنہوں نے یہ رپورٹ تیار کی ہے۔ اُنہوں نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کسی ملک میں سماجی تحفظ کے اچھے یا خراب نظاموں کا انحصار عام طور پر اُس ملک کی اقتصادی صورتحال پر ہوتا ہے لیکن دوسری طرف اقتصادی صورتحال بھی اُتنی ہی اچھی یا خراب ہوتی ہے، جتنے کہ وہاں کے سماجی نظام:’’بہت سے ترقی پذیر اور ترقی کی دہلیز پر کھڑے ایسے ملکوں میں، جہاں سماجی تحفظ کے نظاموں میں سرمایہ کاری کی گئی ہے، ہمیں بہت مثبت کامیابیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ وہاں اس طرح کی سرمایہ کاری نے اقتصادی حالات پر بہت ہی مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔‘‘

آئی ایل او کی اس رپورٹ کے مطابق چین میں بڑھاپے میں سماجی تحفظ کا ایک ملک گیر نظام متعارف کروایا گیا ہے۔ برازیل میں غریب کنبوں کی مدد کے لیے گزشتہ کئی برسوں سے سماجی نظاموں کو تسلسل کے ساتھ بہتر بنایا جا رہا ہے۔ بھارت میں ’مہاتما گاندھی ضمانتِ روزگار اسکیم‘ کے تحت دیہی علاقوں کے کئی ملین انسانوں کو ایک سو روز کے کام کی ضمانت دی گئی ہے۔ رپورٹ کے مصنفین کے مطابق اس طرح کے نظام داخلی منڈی اور یوں ملکی معیشت کے استحکام کا باعث بن رہے ہیں۔ ایسے میں کرسٹینا بیہرنٹ کے مطابق ’ایک روز الٹا یہ سوال پوچھا جانا پڑے گا کہ کیا غریب ممالک سماجی تحفظ کے نظاموں میں پیسہ نہ لگانے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟‘

’مَیں بھوکا ہوں’، یہ لکھا ہے اِس کتبے پر جو یونانی دارالحکومت ایتھنز کے ایک پُر ہجوم مقام پر بیٹھے اِس فقیر نے اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا ہے
’مَیں بھوکا ہوں’، یہ لکھا ہے اِس کتبے پر جو یونانی دارالحکومت ایتھنز کے ایک پُر ہجوم مقام پر بیٹھے اِس فقیر نے اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا ہےتصویر: picture alliance / dpa

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ باقی دنیا کے برعکس یورپ میں معیشت کو استحکام دینے کی کوششوں کے نام پر سماجی سہولتیں بتدریج کم کی جا رہی ہیں۔ کرسٹینا بیہرنٹ کے مطابق خاص طور پر جنوبی یورپ میں غربت اور سماجی سطح پر تنہائی کے شکار بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

آکسفیم کی طرح کی بین الاقوامی امدادی تنظیمیں بھی یورپی بچتی پالیسیوں کے ایسے منفی نتائج سے خبردار کر رہی ہیں، جو اُن کے بقول اسپین اور یونان جیسے ملکوں کے سماجی بہبود کے نظاموں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ آکسفیم کی جرمن شاخ سے وابستہ ٹوبیاز ہاؤشِلڈ کہتے ہیں:’’میرے خیال میں یونان جیسے ملکوں سے آنے والی یہ خبریں بہت ہی تشویشناک ہیں کہ وہاں بچوں کی اَموات کی شرح میں اس لیے بے حد اضافہ ہو چکا ہے کیونکہ لوگ پیسے کی کمی کی وجہ سے صحت کی بہت سی سہولتوں سے استفادہ کر ہی نہیں پا رہے۔‘‘

کچھ عرصہ قبل آکسفیم نے دنیا کے امیر ترین بیس ملکوں کے سماجی نظاموں کے حوالے سے جاری کی گئی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ان ملکوں میں امیر اور غریب طبقات کے درمیان خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں