1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اعضاء کا عطیہ، جان بچانے کا آخری حربہ

24 اگست 2009

بہت سے مریضوں کی جان بچانے کے لئے ڈاکٹروں کے پاس آخری حربہ یہی ہوتا ہے کہ اُس کے جسم کے بیمار عضو کو نکال کر اُس کی جگہ کسی دوسرے انسان کا صحت مند عضو لگا دیا جائے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تکنیک بہتر ہوتی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/JH1v
گردے فروخت کرنے والے پاکستانی شہریتصویر: picture-alliance/dpa

اگرچہ دُنیا بھر میں اعضاء کی پیوند کاری کے کامیاب آپریشنز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ عطیہ کئے جانے والے اعضاء کی تعداد بہت کم ہے۔ عالمی ادارہء صحت WHO کے مطابق سن 2005ء میں پوری دُنیا میں گُردوں کی پیوند کاری کے چھیاسٹھ ہزار آپریشنز کئے گئے جبکہ گردوں کے تمام مریضوں کی مدد کے لئے اِس سے دَس گنا زیادہ آپریشن ضروری تھے۔

Münchener Chirugen transplantieren zwei vollständige Arme
پیوند کاری کے کامیاب آپریشنز کی تعداد میں اضافہتصویر: AP

مریضوں کی اشد ضرورت سے ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔ ایشیا ہو یا افریقہ، گردوں کے ساتھ ساتھ، جگر اور دل جیسے اعضاء کی غیر قانونی تجارت بھی آج کل زوروں پر ہے، خاص طور پر مصر میں اِس حوالے سے پیش آنے والے واقعات اکثر شہ سُرخیوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔

اعضاء کی پیوند کاری کی جرمن فاؤنڈیشن (DSO) کو سن 2000ء سے اعضاء کی پیوند کاری سے متعلق تمام امور میں رابطہ کاری کا کام سونپ دیا گیا ہے۔

گذشتہ برس یعنی سن 2008ء میں تقریباً بارہ سو جرمن باشندوں نے اپنی موت کے بعد ایک یا ایک سے زیادہ ا عضاء عطیہ کئے۔ یہ تعداد اُس سے پہلے سال کے مقابلے میں اٹھاسی فیصد کم ہے۔ فاؤنڈیشن نے اِس رجحان پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے کیونکہ آج کل بھی اعضاء کی پیوند کاری کے منتظر مریضوں میں سے، جن کی تعداد اِس وقت بارہ ہزار ہے، ہر سال ایک ہزار موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

گردے کی پیوند کاری کے لئے مریضوں کو پانچ تا چھ سال تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ افریقی ملک نائیجیریا میں گردوں کی تکلیف ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ بہت کم باشندے ایسے ہیں، جو ڈائلاسس کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔ سب سے بڑے شہر لاگوس کا سینٹ نکولس ہسپتال پورے ملک میں اعضاء کی پیوند کاری کے اہم ترین طبی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہاں گردوں کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر ایبون بامگبوئے بتاتے ہیں: ’’ہمارے ہاں تقریباً دَس فیصد آبادی کو گردوں کے مسائل کا سامنا ہے۔ مزید یہ کہ یورپ کے کسی باشندے کے مقابلے میں افریقی باشندوں کے گردوں کی تکلیف میں مبتلا ہونے کے امکانات چار گنا زیادہ ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ میرے پاس کوئی ایسا مریض نہ آئے، جسے گردوں کی کوئی تکلیف نہ ہو۔‘‘

ایسے میں نائیجیریا میں اعضاء کی غیر قانونی خرید و فروخت عروج پر ہے۔ کچھ لوگ غربت کے باعث اور دیگر منافع کے لالچ میں اس غیر قانونی اور غیر انسانی کاروبار میں ملوث ہوتے ہیں۔ بعض ایسی خبریں بھی سامنے آئیں کہ کئی بچوں کو محض اِس لئے پالا پوسا گیا تاکہ بعد میں اُن کے اعضاء حاصل کئے جا سکیں۔

ڈاکٹر ایبون بامگبوئے کہتے ہیں:’’بہت سے واقعات میں ہم اعضاء کی ٹرانسپلانٹیشن سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ یہ عضو خریدا گیا ہے۔ یہ لوگ پھر پاکستان، بھارت یا بعض دفعہ فلپائن تک بھی چلے جاتے ہیں اور وہاں اپنا آپریشن کرواتے ہیں۔ ایسے آپریشنز میں زیادہ تر غیر قانونی طور پر حاصل کئے گئے اعضاء پیوند کئے جاتے ہیں۔ ہماری ایک خاتون مریض پاکستان گئی، جہاں وہ لاہور میں اپنے لئے گردہ تلاش کرتی رہی۔ بھارت جانے والے مریض عطیہ دینے والے مریض کو یہیں سے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور وہیں اپنا آپریشن کرواتے ہیں۔‘‘

Organspendeausweis
جرمنی میں اپنے اعضا عطیہ کرنے والے افراد اپنے ساتھ ہمیشہ یہ کارڈ رکھتے ہیںتصویر: Picture-Alliance /dpa

بیس سال پہلے تک اسپین کا شمار اُن ملکوں میں ہوتا تھا، جہاں کے شہری بہت کم تعداد میں اپنے اعضاء عطیہ کرتے ہیں۔ لیکن آج کل وہاں ہر ایک ملین باشندوں میں سے عطیہ دئے جانے والے اعضاء کی تعداد 35 بتائی جاتی ہے اور یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ جس کی دُنیا میں کہیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ تعداد باقی یورپ میں عطیہ دئے جانے والے اعضاء کی اوسَط تعداد سے بھی دگنی ہے۔ اِس کے باوجود اسپین میں آج کل ایسے افراد کی تعداد پانچ ہزار بتائی جاتی ہے، جو ٹرانسپلانٹیشن کے منتظر ہیں۔

اسپین میں اعضاء عطیہ کرنے کے لئے آمادگی میں تیزی سے اضافے کا سہرا رافاعیل ماتے ساں کے سر ہے، جو اعضاء عطیہ دینے کے ایک نئے مربوط نظام کے خالق ہیں۔ وہ بتاتے ہیں:’’عطیہ دینے ولے افراد کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے ایسے خوش قسمت انسانوں کی تعداد بھی بڑھی ہے، جنہیں ایک صحت مند عضو میسر آتا ہے۔ بیس سال پہلے کسی ساٹھ سالہ شخص میں کوئی عضو ٹرانسپلانٹ کرنے کا امکان بہت کم ہوا کرتا تھا لیکن اب ساٹھ، ستر بلکہ اسی سالہ مریض بھی ٹرانسپلانٹیشن کے منتظر افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔‘‘

رپورٹ: امجد علی

ادارت: ندیم گِل