1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: بچوں کے حقوق کے لیے آزادانہ اور خود مختار کمیشن کا مطالبہ

25 ستمبر 2012

اگرچہ پاکستان بچوں کے حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کے عالمی کنونشن کی توثیق کر چکا ہے لیکن پھر بھی پاکستان میں بچوں کےحقوق کے حوالے سے صورتحال اچھی نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/16DtY
تصویر: AP

پاکستان کی سینتالیس فی صد آبادی اقوام متحدہ کی تعریف کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر کی حامل ہونے کی وجہ سے بچوں پر مشتمل ہے۔ آٹھ کروڑ سے زائد ان بچوں کے مسائل کے حل اور ان کے حقوق کے تحفط کے حوالے سے سرکاری طور پر ایک بھی موثر، با اختیار اور خود مختار ادارہ موجود نہیں ہے۔

پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے  پاکستانی بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے صوبائی سطح پر اسمبلیوں سے منظور شدہ خود مختار اور با اختیارکمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مطالبہ منگل کے روز بچوں کے لیے کام کرنے والی اٹھائیس غیر سرکاری تنظیموں کے اتحاد چائلڈ رائٹس موومنٹ کے زیر اہتمام ہونے والے ایک مشاورتی اجلاس میں سامنے آیا۔

 اس موقع پر ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے سیو دی چلڈرن نامی ایک غیر سرکاری تنظیم  کے سینئر اہلکار ارشد محمود نے بتایا کہ بچوں کے حقوق کے عالمی کنونشن کی سفارشات پر عملدرآمد کے حوالے سے پاکستان ابھی  بہت پیچھے ہے اور اسے بچوں کی تعلیم، صحت اور دیگر امور کے حوالے سے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول ایک  بڑی تعداد میں بچوں کی پیدائش کا اندراج ہی نہیں کروایا جاتا، اس لیے بچوں کے حوالے سے درست اعداد و شمار بھی دستیاب نہیں ہیں۔

 ان کے مطابق پاکستانی قانون کے مطابق ریاست جرم کرنے یا جرم کا شکار ہونے والے بچوں کو مفت قانونی امداد فراہم کرنے کی پابند ہے، لیکن اس حوالے سے فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے اس پر عمل ہی نہیں ہوتا۔ اقوام متحدہ کے کنونشن کے مطابق بچیوں کی شادی کی کم سے کم عمر اٹھارہ سال مقرر کی گئی ہے لیکن پاکستان میں یہ عمر سولہ سال مقرر ہے اور اس پر بھی بعض اوقات عمل نہیں ہوتا۔

Erdbeben in Pakistan Mutter und Kind
تصویر: AP

 ان کے مطابق اٹھارویں ترمیم کے بعد بچوں کے حقوق کا معاملہ اب صوبوں کے پاس آ گیا ہے اور ہمیں پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے صوبائی سطح پرایسے آزادانہ کمیشن قائم کرنا ہوں گے جونہ صرف بچوں کے حوالے سے شکایات کا جائزہ لیں بلکہ بچوں کو درپیش مسائل  کے حل کے حوالے سے قانون سازی اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے حکومت کو عملی طور پر سفارشات بھی  پیش کر سکیں۔

سیاست دان اور انسانی حقوق کی ایک کارکن مہناز رفیع کا کہنا تھا کہ یہ کمیشن سیاسی طور پر تشکیل نہ دیا جائے، اسے معاشی آزادی بھی حاصل ہونا چاہیے البتہ یہ کمشن اپنی صوبائی اسمبلی کو جوابدہ ہو۔

 مشاورتی اجلاس میں اس وقت صورتحال بڑی ہی دلچسپ ہو گئی جب تاخیر سے آنے والے  پنجاب حکومت کے محکمہ سماجی بہبود کے ڈائریکٹرجنرل ملک محمد اسلم نے اپنی تقریر میں کہا کہ حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے انہیں فلاحی کاموں کے لیے، جو پیسے جون میں ملنے چاہیں، وہ چار ماہ کے بعد ملتے ہیں، اس لیے وہ اس دوران غیر سرکاری فلاحی اداروں کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

 انہوں نے اس موقع پر یہ" نادر شاہی" مشورہ بھی پیش کیا کہ بچوں کے حقوق کے لیے کمیشن بھی اگر نجی ادارے یا غیر سرکاری تنظیمیں ہی بنا لیں تو یہ زیادہ بہتر اور قابل عمل ہو گا۔ یاد رہے پنجاب اسمبلی بچوں کے حقوق کی حفاطت کے حوالے سے پالیسی بنانے کے لیے ایک قرارداد منظور کر چکی ہے۔ ملک اسلم کے مطابق ان کی ترجیحات بچوں کی خوراک، تعلیم اور صحت ہے جبکہ کمیشن ابھی بہت دور کی بات ہے۔

صحافی سعدیہ صلاح الدین کا کہنا تھا کہ بحرانوں میں گھری ہوئی حکومتوں سے امیدیں لگا کر بیٹھے رہنے سے بہتر ہوگا کہ ہر شخص اور ادارہ بچوں کی بہتری کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرے۔ ان کے بقول ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کے اچھے کاموں کی بھی نفی کر دیتی ہے، جس سے وسائل کا ضیاع ہوتا ہے۔

 صوبہ خیبر پختونخواہ میں سرکاری سطح پر بچوں کے لیے ایک کمیشن بنایا گیا ہے، اس صوبے سے تعلق رکھنے والے اعجاز خان نے بتایا کہ ان کے صوبے میں بچوں کی حفاطت کے حوالے سے سرگرمیوں کا دائرہ کار وسیع کیا جا رہا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ معاشی مسائل اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: امتیاز احمد