1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ختنے سے متعلق بے تکی بحث سے تنگ آ چکے ہیں، لالا زوسکنڈ

10 ستمبر 2012

جرمن دارالحکومت برلن میں ختنے کے حق میں کئی سو افراد نے مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے میں سب سے زیادہ تعداد جرمن یہودیوں کی تھی جبکہ مسلم اور مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی احتجاج میں شرکت کی۔

https://p.dw.com/p/165nT
تصویر: picture-alliance/dpa

جرمنی میں گزشتہ چند مہینوں سے لڑکوں کے ختنے کا موضوع زیر بحث بنا ہوا ہے۔ اس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب جون میں کولون شہر کی ایک مقامی عدالت نے ختنے کو سنگین جسمانی نقصان قرار دیا۔ ڈسٹرکٹ کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ملک بھر میں مسلم اور یہودی برادری میں ایک بحث شروع ہو گئی۔

ایک اندازے کے مطابق برلن میں ہونے والے مظاہرے میں تین سو افراد شریک تھے اور ان میں سے کچھ اسرائیلی پرچم جسم پر لپیٹ کر وہاں موجود تھے۔ ان افراد نے ختنے کے حق میں اور اس فیصلے کے خلاف بینرز اٹھائے ہوئے تھے۔ ایک بینر پر تحریر تھا ’’جرمنی دوبارہ نوآبادی طاقت بن گیا ہے‘‘۔ برلن میں ہونے والے مظاہرے میں شرکاء نے آزادیء مذہب کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔ جرمنی میں نازی سوشلسٹوں کی وجہ سے آزادیء مذہب ایک انتہائی نازک موضوع تصور کیا جاتا ہے۔

Demonstration gegen Beschneidungsurteil
اسرائیلی پرچم جسم پر لپیٹ کر بھی کچھ افراد نے مظاہرے میں شرکت کیتصویر: picture-alliance/dpa

برلن میں یہودی برادری کی سابق سربراہ لالا زوسکنڈ نے کہا، ’’ ہم ختنے کے حوالے سے اس بے تکی اور الجھی ہوئی بحث سے تنگ آ چکے ہیں اور اس مظاہرے سے ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ختنہ ہوتا کیا ہے اور یہودی مذہب میں اس کی کیا اہمیت ہے‘‘۔

یہودی مذہب میں لڑکے کا ختنہ پیدائش کے بعد آٹھ دنوں کے دوران ہی کرا دیا جاتا ہے جبکہ مسلمانوں میں فرقے، خاندان اور ملک کے حساب سے ختنہ کرانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ برلن جرمنی کے سولہ صوبوں میں سے واحد صوبہ ہے، جہاں ختنے کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ ڈاکٹروں کو مذہبی بنیادوں پر لڑکوں کا ختنہ کرنے کی اجازت ہے۔ وفاقی حکومت ملکی سطح پر اس حوالے سے قانون سازی میں مصروف ہے تاکہ اسے عمل کو قانونی قرار دیا جائے۔

گو کہ ڈسٹرک عدالت کے فیصلے کا اطلاق کولون اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں ہوتا ہے لیکن ملک بھر میں ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد نے ختنہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ کسی غلطی کی صورت میں انہیں قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جرمنی میں ترک برادری کے نمائندے کینان کولات نے کہا، ’’جرمن حکومت کو ایسا قانون متعارف کرانا چاہیے، جس میں ختنہ سزا سے مستثنیٰ ہو‘‘۔ انہوں نے کہا سالوں سے ملک میں اسقاط حمل کے حوالے سے بحث جاری ہے۔ ’’ یہ بھی ایک طرح کی جسمانی اذیت ہے‘‘۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کہہ چکی ہیں کہ اگرجرمنی میں یہودیوں کو اُن کی مذہبی روایات کی اجازت نہیں ہو گی تو دنیا بھر میں جرمنی کا مذاق بن جائے گا۔ جرمنی میں رجسٹرڈ یہودیوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہے جبکہ مسلمان تقریباً چار ملین ہیں۔

ai / at (Reuters)