1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بدھ مت کے راہبوں کا مارچ

3 ستمبر 2012

میانمار کے صدر تھین سین نے تجویز کیا ہے کہ روہنگیا مسلم اقلیت کو وطن بدر کر دیا جائے یا کیمپوں میں ڈال دیا جائے۔ اس تجویز کی حمایت میں میانمار کے دوسرے بڑے شہر منڈالے میں سینکڑوں بدھ مت کے راہبوں نے ایک ریلی میں شرکت کی۔

https://p.dw.com/p/162Or
تصویر: AP

دریائے ایراوادی کے مشرقی کنارے پر واقع تاریخی شہر منڈالے کے مرکز میں روایتی سرخی مائل زعفرانی لبادوں میں ملبوس سینکڑوں بدھ مت کے راہبوں نے اپنے ملک کے صدر کی تجویز کی حمایت میں اور روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ایک مارچ میں حصہ لیا۔ راہبوں کے جلوس کے ہمراہ بے شمار دوسرے لوگ بھی شریک ہو گئے اور عام لوگوں نے راہبوں کو پھول بھی پیش کیے۔ یہ لوگ بھی راہبوں کی جلوس کی حمایت کر رہے تھے۔ سن 2007 میں فوجی حکومت کے خلاف بدھ مت کے راہبوں کے جلوس کے بعد ان کی یہ ریلی دیکھی گئی ہے۔ پانچ سالہ پرانی بدھ مت کے راہبوں کی ریلی کو فوجی حکومت نے پوری قوت سے کچل دیا تھا۔

Bangladesch Rohingya Bootsflüchtlinge
روہنگیا مسلم اقلیت میانمار اور بنگلہ دیش میں خراب حالوں میں آباد ہےتصویر: Asiapics

منڈالے میں بدھ مت کے راہبوں نے اپنے مارچ میں بینر بھی اٹھا رکھے تھے اور ایک بڑے بینر پر تحریر تھا کہ میانمار کی دھرتی ماں کے تحفظ کی خاطر صدر تھین سین کی حمایت۔ اس مارچ میں اقوام متحدہ کے خلاف بھی تنقیدی پوسٹر اٹھائے گئے تھے۔ مارچ میں شامل پینتالیس سالہ ویراتھُو نامی راہب کا کہنا تھا کہ مارچ میں پانچ ہزار راہبوں نے شرکت کی ہے۔ ایک دوسرے راہب نے اپنا نام بتائے بغیر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے مارچ کا مقصد روہنگیا آبادی کی جانب سے راکھین کے لوگوں کے خلاف روا رکھی جانے والی  دہشت گردی کی مذمت ہے۔

ویراتھو راہب کا مزید کہنا ہے کہ صدر تھین سین نے اصلاحاتی عمل شروع کر رکھا ہے اور صدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر روہنگیا پرامن انداز میں زندگی بسر کرنے پر عمل پیرا ہو جائیں تو ان کو میانمار کی قومیت دی جا سکتی ہے۔ راہبوں کی روہنگیا مسل اقلیت کے خلاف ریلیوں کا سلسلہ مزید دو روز رہنے کا بھی بتایا گیا ہے۔ ماگوے علاقے پاکوکو کے قصبے میں بھی ایک بڑی ریلی کو پلان کیا گیا ہے۔ یہ ریلیاں مختلف علاقوں میں راہب نکالیں گے۔

Sittwe Kämpfe zwischen Muslimen und Buddhisten
راکھین صوبے کے شہر ستوے کا ایک بازار ہنگاموں کے بعدتصویر: Reuters

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے خصوصی سفیرٹوماس اوخیا کوئنتانا (Tomas Ojea Quintana) نے ایک بارپھرمیانمار کے حکام پر روہنگیا مسلم اقلیت کے تناظر میں تنقیید کی ہے۔ کوئنتانا کو میانمار میں خاصی نکتہ چینی کا سامنا ہے۔ صدر تھین سین کی حکومت کا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی روہنگیا مسلمانوں کی حمایت میں جانبدارانہ رویہ رکھتے ہیں۔ دوسری جانب کوئنتانا کا کہنا ہے کہ یہ واضح ہے کہ روہنگیا میانمار کا نسلی گروپ نہیں ہے لیکن وہ امتیازی سلوک کا نشانہ ہیں۔

رواں برس جون میں میانمار کے صوبے راکھین میں بدھ مت کے پیروکاروں اورروہنگیا مسلم اقلیت کے درمیان خونی فسادات ہوئے تھے۔ ان میں نوے سے زائد ہلاک اور ہزاروں روہنگیا مسلمان بےگھر ہو گئے تھے۔ میانمار میں آٹھ لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمان آباد ہیں اور تین لاکھ کے قریب اسی نسل کے لوگ بنگلہ دیش میں آباد ہیں۔

(ah/sks (AFP