روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بدھ مت کے راہبوں کا مارچ
3 ستمبر 2012دریائے ایراوادی کے مشرقی کنارے پر واقع تاریخی شہر منڈالے کے مرکز میں روایتی سرخی مائل زعفرانی لبادوں میں ملبوس سینکڑوں بدھ مت کے راہبوں نے اپنے ملک کے صدر کی تجویز کی حمایت میں اور روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ایک مارچ میں حصہ لیا۔ راہبوں کے جلوس کے ہمراہ بے شمار دوسرے لوگ بھی شریک ہو گئے اور عام لوگوں نے راہبوں کو پھول بھی پیش کیے۔ یہ لوگ بھی راہبوں کی جلوس کی حمایت کر رہے تھے۔ سن 2007 میں فوجی حکومت کے خلاف بدھ مت کے راہبوں کے جلوس کے بعد ان کی یہ ریلی دیکھی گئی ہے۔ پانچ سالہ پرانی بدھ مت کے راہبوں کی ریلی کو فوجی حکومت نے پوری قوت سے کچل دیا تھا۔
منڈالے میں بدھ مت کے راہبوں نے اپنے مارچ میں بینر بھی اٹھا رکھے تھے اور ایک بڑے بینر پر تحریر تھا کہ میانمار کی دھرتی ماں کے تحفظ کی خاطر صدر تھین سین کی حمایت۔ اس مارچ میں اقوام متحدہ کے خلاف بھی تنقیدی پوسٹر اٹھائے گئے تھے۔ مارچ میں شامل پینتالیس سالہ ویراتھُو نامی راہب کا کہنا تھا کہ مارچ میں پانچ ہزار راہبوں نے شرکت کی ہے۔ ایک دوسرے راہب نے اپنا نام بتائے بغیر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے مارچ کا مقصد روہنگیا آبادی کی جانب سے راکھین کے لوگوں کے خلاف روا رکھی جانے والی دہشت گردی کی مذمت ہے۔
ویراتھو راہب کا مزید کہنا ہے کہ صدر تھین سین نے اصلاحاتی عمل شروع کر رکھا ہے اور صدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر روہنگیا پرامن انداز میں زندگی بسر کرنے پر عمل پیرا ہو جائیں تو ان کو میانمار کی قومیت دی جا سکتی ہے۔ راہبوں کی روہنگیا مسل اقلیت کے خلاف ریلیوں کا سلسلہ مزید دو روز رہنے کا بھی بتایا گیا ہے۔ ماگوے علاقے پاکوکو کے قصبے میں بھی ایک بڑی ریلی کو پلان کیا گیا ہے۔ یہ ریلیاں مختلف علاقوں میں راہب نکالیں گے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے خصوصی سفیرٹوماس اوخیا کوئنتانا (Tomas Ojea Quintana) نے ایک بارپھرمیانمار کے حکام پر روہنگیا مسلم اقلیت کے تناظر میں تنقیید کی ہے۔ کوئنتانا کو میانمار میں خاصی نکتہ چینی کا سامنا ہے۔ صدر تھین سین کی حکومت کا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی روہنگیا مسلمانوں کی حمایت میں جانبدارانہ رویہ رکھتے ہیں۔ دوسری جانب کوئنتانا کا کہنا ہے کہ یہ واضح ہے کہ روہنگیا میانمار کا نسلی گروپ نہیں ہے لیکن وہ امتیازی سلوک کا نشانہ ہیں۔
رواں برس جون میں میانمار کے صوبے راکھین میں بدھ مت کے پیروکاروں اورروہنگیا مسلم اقلیت کے درمیان خونی فسادات ہوئے تھے۔ ان میں نوے سے زائد ہلاک اور ہزاروں روہنگیا مسلمان بےگھر ہو گئے تھے۔ میانمار میں آٹھ لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمان آباد ہیں اور تین لاکھ کے قریب اسی نسل کے لوگ بنگلہ دیش میں آباد ہیں۔
(ah/sks (AFP