1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈرون حملے، پاکستان کا مؤقف سخت ہوتا ہوا

24 اگست 2012

پاکستان نے اپنے قبائلی علاقوں پر بڑھتے ہوئے امریکی ڈرون میزائل حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں پاکستانی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/15w8b
تصویر: picture alliance/dpa

دفتر خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے جمعے کے روز ذرائع ابلاغ کو بریفنگ دیتے ہوئےکہا کہ ڈرون حملوں سے متعلق پاکستان کا مؤقف بہت واضح ہے، ’’ ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ یہ حملے غیر قانونی ہیں، پاکستانی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی اور بین الاقوامی اصولوں کے منافی ہے۔‘‘

ڈرون حملوں پر بطور احتجاج امریکی اعلیٰ سفارتکار کی اسلام آباد میں دفتر خارجہ میں طلبی کے صرف چند گھنٹوں بعد امریکی جاسوس طیاروں نے جمعے کے روز شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر دس ڈرون میزائل داغے جن میں 18 مشتبہ عسکریت پسندوں کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔

امریکی ڈرون میزائل حملوں کا معاملہ کسی بین الاقوامی فورم پر لے جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے کہا کہ پاکستان کے پاس اس مسئلے کے حل کے لیے دوسرے آپشنز بھی موجود ہیں لیکن فی الحال اس مسئلے کا دوطرفہ حل تلاش کیا جا رہا ہے۔ معظم احمد خان نے کہا ،” ہم امریکی قیادت کے ساتھ ان امور پر مختلف سطحوں پر بات چیت کر رہے ہیں ہم مختلف تجاویز پر بھی کام کر رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ اس مسئلے کا دوطرفہ قابل قبول حل نکال لیں گے۔“

Demos gegen US Drohneneinsätze Archivbild
پاکستان میں ڈرون حملوں کے خلاف عوامی سطح پر شدید غصہ پایا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ادھر ایک امریکی غیر سرکاری ادارے نیو امریکا فاﺅنڈیشن کے مطابق رواں سال اب تک پاکستان کے قبائلی علاقوں پر 30 ڈرون میزائل حملوں کے نتیجے میں207 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

پاکستان کی جانب سے امریکی ڈرون میزائل حملوں کو غیر قانونی اور ناقابل قبول قرار دیا جاتا رہا ہے اور اس ضمن میں اسلام آباد میں امریکی سفارتکاروں کو بھی وقتاً فوقتاً دفتر خارجہ طلب کیا گیا لیکن امریکی میزائل حملوں میں کمی نہیں آئی۔ تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے پاکستانی سرزمین پر پناہ لینے والے طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں کے خلاف ایک موثر ہتھیار ثابت ہوئے ہیں۔

اسلام آباد اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر نجم رفیق کا کہنا ہے کہ پاکستان نے حال ہی میں افغانستان میں نیٹو افواج کی سپلائی لائن کی بحالی کے لیے امریکا کے ساتھ مفاہمت کی جس یادداشت پر دستخط کیے اس میں پاکستان کی پوزیشن کمزور تھی۔ اس لیے امریکی سمجھتے ہیں کہ وہ کسی بھی طرح پاکستان کو دبا سکتے ہیں۔

نجم رفیق نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا، ”امریکی اشارہ دے چکے ہیں کہ انہیں پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کا لحاظ نہیں ہے اور وہ واضح طور پر یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی بھی طرح پاکستان پر اعتماد کے لیے تیار نہیں۔ یہ بداعتمادی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ امریکی نہ صرف ڈرون حملے کر رہے ہیں بلکہ میرا خیال ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کو بھی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں۔“

بعض حلقوں میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ ڈرون میزائل حملوں کے بارے میں امریکی اور پاکستانی حکام کے درمیان ایک غیر اعلانیہ مفاہمت موجود ہے، جس کے تحت ایک جانب امریکی میزائل حملے جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان ان حملوں کی مذمت پر اکتفا کر رہا ہے۔ نجم رفیق کا کہنا ہے کہ اگر اس غیر اعلانیہ مفاہمت کی بات کو درست مان لیا جائے تو پھر پاکستان اور اس کے عوام کا مستقبل محفوظ نہیں۔

دریں اثناء دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان اس سال اسٹریٹیجک ڈائیلاگ بھی متوقع ہے اور اس کی تاریخ طے کرنے کے حوالے سے دوطرفہ بات چیت اور صلاح مشورے جاری ہیں۔

رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: عاطف بلوچ