ڈرون حملوں پر برہمی، امریکی سفارت کار کی دفترخارجہ طلبی
24 اگست 2012جمعرات کے روز پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ ہفتے کے روز سے اب تک ملک کے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں ہونے والے مختلف ڈرون حملوں میں کم از کم 15 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ان حملوں پر احتجاج کے لیے ایک سینیئر امریکی سفارت کار کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا۔ ’’امریکی سفارت کار کو بتایا گیا کہ ڈرون حملے بین الاقوامی قانون اور پاکستانی سالمیت کے خلاف ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستان امریکی ڈرون طیاروں کے حملوں کو عوامی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں عسکریت پسندی کے رجحان میں اضافے کا موجب قرار دیتا ہے۔ اس سے قبل رواں برس جون میں بھی ایک امریکی سفارت کار کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا تھا اور ان سے ڈرون حملوں پر احتجاج کیا گیا تھا۔
رواں ماہ کے آغاز میں پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینیٹ ظہیرالاسلام نے واشنگٹن میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس سے ملاقات میں بھی ڈرون حملوں پر گفتگو کی تھی۔ پاکستانی فوج کی جانب سے ایک بیان میں بتایا گیا تھا کہ اس ملاقات میں ڈرون حملوں کا موضوع کلیدی نوعیت کا تھا۔ اس ملاقات کے بعد کہا جا رہا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات میں بہتری آ رہی ہے، تاہم پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ڈرون حملوں میں تیزی کو ان تعلقات میں کشیدگی کی نئی لہر کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ امریکا اور مغربی ممالک شمالی وزیرستان کو عسکریت پسندوں کا مضبوط ٹھکانا تصور کرتے ہیں، تاہم امریکی مطالبات کے باوجود پاکستان شمالی وزیرستان میں آپریشن سے انکار کرتا رہا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں پاکستانی فوجی قیادت کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آئے تھے، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اب شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن پر آمادہ ہے۔
at/ ng (AFP)