1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں آنکھیں عطیہ کرنے کی مہم

21 اگست 2012

فلاحی تنظیم "ٹرسٹ برائے انسداد نابینا پن" نے پاکستانی شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بعد از مرگ آنکھوں کے عطیے دینےکی مہم میں شریک ہوں تاکہ ملک میں موجود لاکھوں نابینا افراد کی بصارت بحال کی جا سکے۔

https://p.dw.com/p/15tgh
تصویر: DW

پاکستان میں بصارت سے محروم مریضوں کی تعداد ساڑھے سولہ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ غریب مریضوں کا علاج کرنے والے آنکھوں کے ڈاکٹروں کی ایک غیر سرکاری تنظیم "ٹرسٹ برائے انسداد نابینا پن" کےچیئرمین ڈاکٹر انتظار حسین بٹ کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے پاکستان میں آنکھوں کے قرنیے عطیہ کرنے کا رجحان نہیں ہے۔ ان کے بقول پاکستان میں نابینا افراد کی بینائی بحال کرنے کے لیے ہر سال آنکھوں کے قرنیوں کے کم از کم دس ہزارعطیات کی ضرورت ہے لیکن پاکستان میں شاید گنتی کے چند افراد ہی ایسے عطیات دیتے ہیں۔ ان میں بھی زیادہ تر موت کی سزا پانے والے جیل کے وہ قیدی ہوتے ہیں جنہوں نے ڈاکٹروں کی ترغیب پر وصیت کی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر بٹ کا کہنا تھا کہ بعض اوقات کچھ لوگ اپنی آنکھوں کا قرنیہ عطیہ کرنے کی وصیت بھی کر جاتے ہیں لیکن ان کی موت کے بعد ان کے عزیز و اقارب اس وصیت پر عمل درآمد نہیں ہونے دیتے۔

ڈاکٹر بٹ کے مطابق اب کئی جید علما کی طرف سے آنکھوں کے قرنیے عطیہ کرنے کے حق میں فتوے بھی موجود ہیں۔ آج کل ٹرسٹ برائے انسداد نابینا پن لوگوں میں اس موضوع کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کے لیے ایک مہم چلا رہا ہے، ڈاکٹر انتظار بٹ کے مطابق صحافیوں، علمائے کرام، ڈاکٹروں اور معاشرےکے تمام دیگر طبقات کو اس آگاہی مہم میں حصہ لینا چاہیے۔

Surya Bahadur Parihar ist blind und Radiomoderator in Nepal
تصویر: DW

"ہم پہلے مرحلے میں اپنا پیپر ورک مکمل کر رہے ہیں،اور سینئر ڈاکٹروں، ہیلتھ کے شعبے میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں اور میڈیا کے اداروں سے رابطے کر رہے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں ہم بڑے پیمانے پر ایک ملک گیر مہم چلائیں گے۔ ہم صرف قریباً ایک کروڑ کی آبادی والے شہر لاہور سے ہی لاکھوں افراد کے عطیات کے وصیت نامے حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں۔"

یاد رہے کہ دنیا بھر میں سری لنکا ایک ایسا ملک ہے جس کے شہری بڑی تعداد میں آنکھوں کےعطیات دیتے ہیں۔ پاکستان میں بھی زیادہ تر سری لنکن لوگوں کے عطیہ کیے ہوئے قرنیے ٹرانسپلانٹ کیے جاتے ہیں۔ پہلے یہ عطیات مفت میسر تھے۔ اب ایک قرنیے کے عطیے کے حصول کے لیے ساڑھے تین سو ڈالر سروس چارجز ادا کرنا پڑتے ہیں۔

ڈاکٹڑ انتظار حسین بٹ کا کہنا ہے کہ آنکھوں کے عطیات دینے کے رجحان کو فروغ دے کر ہم بہت سے لوگوں کو اس قابل بنا سکتے ہیں کہ وہ بھی اس خوبصورت دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔

ڈاکٹر بٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں سفید موتیا، کالا موتیا، ذیابیطس، ککرے، قرنیا کی سفیدی اور بچوں میں وٹامن اے کی کمی اندھے پن کی وجوہات ہیں۔ ان کے بقول ملک کے دور دراز علاقوں میں آنکھوں کے ڈاکٹروں کی سہولت میسر نہیں ہے اور یہ کہ بہت سے لوگ غربت کی وجہ سے بھی اپنا علاج نہیں کروا پاتے۔

ان کے بقول چالیس سال سے زائد عمر کے لوگوں، سکول جانے والے بچوں اور کمرشل ڈرائیوروں کی آنکھوں کا معائنہ ضرور ہونا چاہیے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد،لاہور

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید