1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سرنگوں کے خاتمے سے غزہ میں اشیائے ضرورت کی قلت

Afsar Awan10 اگست 2012

اتوار چار اگست کو مصر اور اسرائیل کے سرحدی علاقے سینائی میں مسلح افراد کے مصری فوجیوں پر حملے اور پھر اسرائیلی علاقے میں فرار ہونے کے فوری بعد غزہ کے پٹرول اسٹیشنوں پر سینکڑوں کی تعداد میں گاڑیاں قطاروں میں نظر آئیں۔

https://p.dw.com/p/15nUz
تصویر: shawgy al farra

غزہ کے باسی دراصل متوقع حالات کے پیش نظر کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتے تھے اور وہ پٹرول اور دیگر اشیائے ضرورت زیادہ سے زیادہ مقدار میں ذخیرہ کرنا چاہتے تھے۔ اور ان کے یہ خدشات غیر حقیقی بھی نہیں تھے۔

غزہ پٹی کا علاقہ اسلامی تنظیم حماس کے زیر انتظام ہے۔ مصر کی طرف سے حماس کو درخواست کی گئی کہ وہ ایسی تمام زیر زمین سرنگیں بند کر دے، جن کے ذریعے غزہ کے علاقے تک سازوسامان اور لوگوں کو اسمگل کیا جاتا ہے۔ حماس نے یہ درخواست قبول کرتے ہوئے ان سرنگوں سے آمد و رفت بند کرا دی۔

حرب کے بقول وہ سرنگوں کے راستے خوراک، لوہا، تعمیراتی ساز و سامان اور فیول کے علاوہ دیگر روزمرہ کی اشیاء لاتے ہیں
حرب کے بقول وہ سرنگوں کے راستے خوراک، لوہا، تعمیراتی ساز و سامان اور فیول کے علاوہ دیگر روزمرہ کی اشیاء لاتے ہیںتصویر: shawgy al farra

اتوار کے حملے کے بعد اسرائیل کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ حملہ آور دراصل غزہ پٹی سے تعلق رکھتے تھے اور وہ انہی زیر زمین سرنگوں کو استعمال کرکے سینائی پہنچے تھے۔ حماس کی طرف سے ان الزامات کی تردید کی گئی ہے۔ مصری سکیورٹی حکام کے مطابق قاہرہ حماس کے ساتھ مل کر اس یقینی بنا رہا ہے کہ اسمگلنگ کے لیے استعمال کی جانے والی تمام تر سرنگوں کو بند کر دیا جائے۔

بدھ آٹھ اگست کو مصری فوج نے اپنی سرحد پر بلڈوزر پہنچا دیے تاکہ رفح شہر سے مصر کی طرف کھلنے والی سرنگوں کو بند کر دیا جائے۔ صرف یہی نہیں بلکہ مصر نے مسلم دنیا کی طرف غزہ کا اکلوتا رابطہ رفح کراسنگ کو بھی بند کر دیا ہے۔ یہ اقدام غزہ کے شہریوں کے لیے مزید مایوسی کا باعث بنا ہے۔

غزہ کے ایک شہری نے جرمن خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے اپنا نام ظاہر کیے بناکہا، ’’ اگر کہیں بھی سفر کرنے کا ارادہ نہ ہو تب بھی جب آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ ہر راستہ بند ہو گیا ہے تو آپ خود کو جکڑا ہوا محسوس کرتے ہیں۔‘‘

ڈی پی اے کے مطابق اگرچہ حماس حکام نے اصل تعداد بتانے سے انکار کردیا مگر خیال کیا جاتا ہے کہ سرحد کے نیچے کم از کم 400 سرنگیں موجود ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کو بند کیا جا چکا ہے۔

اسرائیل کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ حملہ آور دراصل غزہ پٹی سے تعلق رکھتے تھے اور وہ انہی زیر زمین سرنگوں کو استعمال کرکے سینائی پہنچے تھے
اسرائیل کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ حملہ آور دراصل غزہ پٹی سے تعلق رکھتے تھے اور وہ انہی زیر زمین سرنگوں کو استعمال کرکے سینائی پہنچے تھےتصویر: picture alliance/landov

اسرائیل نے غزہ پٹی کے علاقے پر سرحدی پابندیاں 2006ء میں لگائی تھیں اور اس کے ایک سال بعد جب حماس نے اس علاقے کا کنٹرول سنبھالا تو یہ پابندیاں مزید سخت کر دی گئیں تھیں۔ تاہم اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ کے لیے اس کی سرحد سے مسلسل ساز و سامان لے جانے والے ٹرکوں کو گزرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

ایک 40 سالہ فلسطینی ابو شادی حرب کے مطابق اسرائیل کے راستے آنے والی اشیائے ضرورت کی قیمت ان اشیاء سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جو سرنگوں کے راستے لائی جاتی ہیں۔ حرب کے بقول وہ سرنگوں کے راستے خوراک، لوہا، تعمیراتی ساز و سامان اور فیول کے علاوہ دیگر روزمرہ کی اشیاء لاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر سرنگوں کو اسی طرح بند رکھا گیا تو بہت جلد غزہ کے لوگوں کی روزمرہ زندگی متاثر ہونا شروع ہو جائے گی اور یہ صورتحال کسی انسانی بحران کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے۔

غزہ پٹی کے ایک اور رہائشی 28 سالہ ندال الواحدی کے مطابق، ’’ ہم لوگ شدید خوفزدہ ہیں کہ اگر ان سرنگوں کو بغیر کسی دیگر بندوبست کے لمبے عرصے تک بند رکھا گیا تو ہمارا کیا ہوگا۔‘‘

aba/ab (dpa)