میانمار کی سکیورٹی فورسز جبر کی مرتکب ہوئیں، ہیومن رائٹس واچ
1 اگست 2012انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے میانمار میں جب روہنگیا مسلمانوں اور راکھنی بدھ متوں کے مابین نسلی فسادات شروع ہوئے تو حکام نے ابتدائی طور پر اسے روکنے کے لیے کچھ زیادہ کوشش نہیں کی تھی۔
خبر رساں ادارے نے ہیومن رائٹس واچ کے حوالے سے بتایا ہے کہ راکھین کے کئی علاقوں میں امدادی کارکنوں کو جانے سے روکا گیا اور کچھ واقعات میں تو انہیں گرفتار بھی کر لیا گیا۔
نیویارک کے ادارے کی طرف سے ترتیب دی گئی اس رپورٹ میں راکھنی اور روہنگیا کمیونٹی کے ستاون افراد کے انٹرویو قلمبند کیے گئے ہیں۔ اس رپورٹ کا مقصد میانمار میں پائے جانے والے اس پرانے تنازعہ پر روشنی ڈالنا مقصود ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ 2011ء میں اقتدار میں آنے والی حکومت نے ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے لیے ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے کہا، ’’برما کی سکیورٹی فورسز روہنگیا اور راکھنی کمیونٹیوں کو ایک دوسرے سے بچانے میں ناکام ہوئیں اور بعد ازاں انہوں نے روہنگیا کمیونٹی کے خلاف تشدد کی ایک مہم شروع کر دی‘‘۔
بریڈ ایڈمز کے بقول میانمار کی حکومت دعوے کرتی ہے کہ وہ نسلی منافرت کو ختم کرنے کے لیے پر عزم ہے لیکن حالیہ واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں ریاستی سطح پر جبر اور نسلی امتیاز برقرار ہے۔
میانمار میں مختلف مذاہب اور نسلوں کے لوگ آباد ہیں لیکن وہاں کی حکومت روہنگیا کمیونٹی کو ملک کا حصہ تسلیم نہیں کرتی۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی تعداد آٹھ لاکھ کے قریب بنتی ہے تاہم حکومت نے اسے ایک نسلی گروپ کے طور پر رجسٹرڈ نہیں کیا ہے۔
دوسری طرف بنگلہ دیش بھی انہیں تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور جب کبھی بھی یہ لوگ کسی بد امنی کی صورت میں بنگلہ دیش کا رخ کرتے ہیں تو انہیں واپس دھکیل دیا جاتا ہے۔
ab/at (Reuters)