1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مٹ رومنی کے غیر ملکی دورے کا خارجہ سیاسی پہلو

26 جولائی 2012

امریکا میں اس سال ہونے والے صدارتی انتخابات کے ریپبلکن امیدوار مٹ رومنی ان دنوں غیر ملکی دورے پر ہیں جس دوران وہ اپنے ناقدین کو خارجہ سیاست میں اپنی مہارت کا قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/15f0l
تصویر: Reuters

مٹ رومنی اپنے موجودہ سفر کے دوران تین ملکوں کا دورہ کریں گے اور اس دوران ان کی اب تک کی کوشش یہ ہے کہ اپنے ناقدین کو اچھی تقریروں سے خاموش کرا سکیں۔

امریکا میں ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار اور موجودہ صدر باراک اوباما کے انتخابی حریف واشنگٹن کی خارجہ سیاست میں بڑی تبدیلی کے خواہش مند ہیں لیکن ان کی مشکل یہ ہے کہ صدارتی امیدوار کے طور پر خارجہ سیاست میں انہیں ایک طاقتور حریف کا سامنا ہے۔

TV Duell Barak Obama Mitt Romney Hempstead
امریکی صدارتی الیکشن کے دونوں حریف امیدوارتصویر: AP

باراک اوباما کے پاس امریکی رائے دہندگان کو بتانے کے لیے کافی کچھ ہے: امریکا نے اوباما کی قیادت میں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا، عراق سے امریکی فوج کا انخلاء بھی اوباما کے دور صدارت میں ہوا اور افغانستان میں اتحادی فوجی دستوں کی جنگی کارروائیوں کے خاتمے کی تاریخ بھی اوباما دور میں ہی طے کی گئی۔

عرب دنیا میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران کافی تبدیلیاں آ چکی ہیں لیکن بہت سی عرب ریاستوں اور یورپی ملکوں کے ساتھ آج امریکا کے تعلقات جارج ڈبلیو بش کے دور صدارت کے مقابلے میں واضح طور پر بہتر ہیں۔

لیکن مٹ رومنی جانتے ہیں کہ اپنے سیاسی حریف کی تعریف کر کے تو کوئی بھی کوئی الیکشن نہیں جیت سکتا۔ اس لیے رومنی بھی، جنہیں اگست میں ریپبلکن پارٹی کی طرف سے باقاعدہ طور پر صدارتی امیدوار نامزد کیا جائے گا، اوباما کے ساتھ تصادم کا راستہ اپنائے ہوئے ہیں۔

مٹ رومنی اس وقت اپنے ایک ہفتے کے دورانیے کے غیر ملکی دورے کے پہلے مرحلے میں برطانیہ میں ہیں۔ وہ برطانیہ میں کھیلوں کے اولمپک مقابلوں کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے علاوہ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے بھی ملیں گے۔ بعد میں وہ اسرائیل اور پولینڈ بھی جائیں گے۔

باراک اوباما کے حریف صدارتی امیدوار نے یہ دورہ شروع کرنے سے پہلے امریکا ہی میں ریٹائرڈ فوجیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے واشنگٹن کی خارجہ سیاست پر کھل کر اظہار خیال کیا تھا۔ وہ چاہتے ہیں کہ موجودہ صدی ’امریکا کی صدی‘ ہو۔

Olympia London 2012 Symbolbild
رومنی لندن اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں بھی شرکت کریں گےتصویر: picture-alliance/dpa

رومنی کا اوباما پر الزام ہے کہ موجودہ ڈیموکریٹ صدر نے امریکا کی عالمی سطح پر لیڈرشپ کی اہلیت کو کمزور کر دیا ہے۔ وہ یورپ میں امریکی دفاعی راکٹ نظام اور ایرانی اور شمالی کوریائی ایٹمی پروگراموں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ امریکی تعلقات مزید بہتر بنائے جانے چاہیئں۔

لیکن مٹ رومنی یہ سب کچھ کہتے ہوئے تفصیلات میں نہیں جاتے۔ مثال کے طور پر وہ یہ تو کہتے ہیں کہ وہ امریکا کی طاقت پر پورا یقین رکھتے ہیں لیکن انہیں یہ بھی بخوبی علم ہے کہ مشرق وسطیٰ کا تنازعہ اتنی آسانی سے حل ہونے والا نہیں۔

مٹ رومنی یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ چین کو منصفانہ تجارت اور کاپی رائٹس کے تحفظ کے سلسلے میں بین الاقوامی قوانین کے احترام کا پابند بنائیں گے، مصر کے لیے امریکی امداد کو اس بات سے مشروط کیا جائے گا کہ وہاں آزاد اور جمہوری معاشرہ تشکیل پائے اور ایران کو یورینیم کی افزودگی ہر حال میں روکنا ہو گی۔

لیکن یورپ کے بارے میں اس ریبپلکن سیاستدان نے خاص طور پر اور واضح انداز میں کچھ بھی نہیں کہا۔ اپنے اس دورے کے دوران رومنی جرمنی نہیں آئیں گے، جہاں چند سال پہلے برلن میں امریکی صدارتی امیدوار کے طور پر دو لاکھ سے زائد جرمنوں نے اوباما کا ایک روک اسٹار کی طرح کا خیر مقدم کیا تھا۔

اس دورے کے ذریعے مٹ رومنی کے لیے امریکی ووٹروں کے سامنے خود کو خارجہ سیاست میں اوباما سے بہتر ثابت کرنا اور اپنے ناقدین کو خاموش کرا دینا کافی مشکل ہو گا۔

C. Bergmann, mm / km