1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں پنچایت کا ایک اور انسانیت سوز فیصلہ

20 جولائی 2012

پاکستانی حکومت کی جانب سے غیر قانونی قرار دیے جانے کے باوجود جرگہ اور پنچایت اب بھی لوگوں کی زندگی اور موت کے فیصلے کر رہا ہے۔ خانیوال میں ایک خاتون مبینہ طور پر پنچایت کے حکم پر اینٹیں مار کر ہلاک کر دی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/15cEK
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستانی حکومت اور عدالتوں کی جانب سے غیر قانونی قرار دیے جانے کے باوجود جرگہ اور پنچایت اب بھی لوگوں کی زندگی اور موت کے فیصلے کر رہا ہے۔ خانیوال میں ایک خاتون مبینہ طور پر پنچایت کے حکم پر اینٹیں مار کر ہلاک کر دی گئی ہے۔

اطلاعات کے مطابق پانچ بچوں کی ماں 25 سالہ مریم بی بی نے مبینہ طور پر علاقے کے ایک با اثر شخص کے کھیتوں سے گھاس کاٹ لیا تھا جس پر ایک پنچایت بلائی گئی اور بعد میں مریم بی بی کو قتل جبکہ اس کے شوہر کو اغوا کر لیا گیا۔

خانیوال کے واقعے کے حوالے سے مقامی ذرائع ابلاغ پر خبروں کی اشاعت کے بعد سپریم کورٹ نے معاملے کا از خود نوٹس لیا ہے۔ جمعے کو اپنی کارروائی میں عدالت نے پنجاب پولیس کو فوری طور پر ملزمان گرفتار کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ دوسری صورت میں صوبائی پولیس کے سربراہ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔

Pakistan Gebäude Oberster Gerichtshof in Islamabad
سپریم کورٹ نے پنچاب پولیس سے خانیوال میں خاتون کو پنچایت کے حکم پر قتل کیے جانے سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت 23 جولائی تک ملتوی کر دی ہےتصویر: Reuters

اس واقعے کے سامنے آنے کے بعد انسانی حقوق کی تنظیمیں ایک مرتبہ پھر سراپا احتجاج بن گئی ہیں۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی معروف کارکن ثمر من اللہ نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس میں سب سے بڑی فکر و تشویش کی بات یہ ہے کہ جہاں عورتوں سے متعلق فیصلے آتے ہیں، وہاں ہمارے سامنے جو اعداد و شمار ہیں، ان کے مطابق جرگوں اور پنچایتوں کے فیصلوں میں بہت زیادہ زیادتی ہوتی ہے۔ جیسے ابھی پنجاب کا واقعہ ہوا ہے، جہاں ایک عورت کو اینٹوں سے مارا گیا یا جہاں بلوچستان میں عورتوں کو زندہ دفنایا گیا۔ یہ وہ مقدمات ہیں، جہاں اگر رسمی پنچایت نہیں تو اس علاقے کے بڑے فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ سزا مناسب ہے‘۔ ثمر من اللہ کا کہنا ہے کہ جب تک ان واقعات کے ساتھ سختی سے نہیں نمٹا جائے گا یہ کبھی بھی ختم نہیں ہوں گے۔

خیال رہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے 23 اپریل 2004ء کو اپنے ایک فیصلے میں جرگوں کو غیر قانونی قرار دیا تھا جبکہ کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ نے بھی کوہستان میں مبینہ طور پر جرگے کے ہاتھوں 5 خواتین کے قتل سے متعلق ایک مقدمے کے دوران کہا تھا کہ پنچایتیں اور جرگے غیر قانونی ہیں۔

خواتین کے قانونی مسائل کے حل کے لیے سرگرم ایک خاتون وکیل رفعت بٹ کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں خواتین سے متعلق کوئی مؤثر قانون سازی نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اب تک ہونے والی قانون سازی کے سلسلے میں بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور متعلقہ عدالتوں کے ججوں کو تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے رفعت بٹ نے کہا کہ ’جرگے یا پنچایت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مجرمانہ سازش، اعانت جرم یا غیر قانونی اقدامات کی شقوں کے تحت مقدمات قائم ہوتے ہیں، جن کی سزا نسبتاً کم ہے۔ پنچایتوں اور جرگوں کے ارکان کو بھی جرم کا حصہ سمجھا جائے کیونکہ وہ بھی جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ جب تک حکومت اپنی ذمہ داری قبول کر کے اس طرح کے واقعات کا فوری تدارک نہیں کرے گی، تب تک ان کی روک تھام ممکن نہیں۔ ابھی اگر خواتین کے حقوق سے متعلق قوانین آئے بھی ہیں تو وہ نقائص سے اس قدر بھرپور ہیں اور ان کے نفاذ کا طریقہ کار اتنا کمزور ہے کہ وہ صرف کاغذات پر خوشنما دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقی معنوں میں کوئی ریلیف فراہم نہیں کرتے‘۔

Pakistan Parlament Nationalversammlung in Islamabad
خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن کی چیئر پرسن انیس ہارون کا کہنا ہے کہ قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہو رہاتصویر: AP

دوسری جانب خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن کی چیئر پرسن انیس ہارون کا کہنا ہے کہ قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، جس کی وجہ سے غیر قانونی پنچایتوں اور جرگوں کے ذریعے عام لوگوں خصوصاً خواتین کو سزائیں دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا:’’اصل میں یہ انتظامیہ کی کمزوری ہے کہ وہ اس طرح کی چیزیں اپنے علاقوں میں دیکھتی ہے لیکن پولیس کوئی ایکشن نہیں لیتی، الٹا ان کے ساتھ ملی ہوتی ہے۔ جب تک قانون نافذ کرنے والے ادارے سختی نہیں کریں گے، ان قوانین کا نفاذ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟‘‘

دریں اثناء سپریم کورٹ نے پنچاب پولیس سے خانیوال میں خاتون کو پنچایت کے حکم پر قتل کیے جانے سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت 23 جولائی تک ملتوی کر دی ہے۔

رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: امجد علی