’’امریکہ نے پاکستان سے کھل کر معافی نہیں مانگی‘‘
11 جولائی 2012گزشتہ برس ایک امریکی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد اسلام آباد حکومت نے سات ماہ سے بھی زائد عرصے تک نیٹو کی سپلائی لائن بند رکھی تھی۔ سپلائی کی بحالی کے لیے مئی میں پاکستانی صدر زرداری اور امریکی وزیر خارجہ کلنٹن کی شکاگو میں منعقدہ ملاقات فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اپنے 24 فوجیوں کی ہلاکت کے معاملے پر اسلام آباد حکومت نے خوب احتجاج کیا اور بالآخر امریکہ کو معذرت پر مجبور کیا تاہم واشنگٹن نے بھی براہ راست معافی مانگنے کے بجائے نہایت سلیقہ مندی سے معذرت کے الفاظ چُنے۔
اس ضمن میں یہ احتیاط برتی گئی کہ اسلام آباد کی خواہش بھی پوری ہو اور رواں سال ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات جیسے نازک مرحلے میں صدر باراک اوباما پر اندرون خانہ تنقید کے سلسلے کا آغاز بھی نہ ہو۔ ذرائع کے مطابق وزیر دفاع لیون پنیٹا کے اس بیان نے بھی امریکی انتظامیہ کو معافی کے ردعمل سے کسی حد تک بچایا، جس میں انہوں نے متبادل سپلائی روٹ کے بدلے ہر ماہ واشنگٹن کو پہنچنے والے اضافی ایک سو ملین ڈالر کے اخراجات کا ذکر کیا۔ امریکی ذرائع کے مطابق وزیر دفاع پنیٹا اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی جیسے عہدیدار پاکستان سے معافی نہ مانگنے کے حق میں تھے۔
روئٹرز نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا کہ شکاگو میں صدر زرداری کے ہمراہ پاکستانی وزیر خزانہ عبد الحفیظ شیخ بھی امریکی عہدیداروں سے ملے اور بعد میں انہوں نے ہلیری کلنٹن کے ایک نائب تھومس نائڈس کے ساتھ طویل رابطہ کاری کے بعد ٹرانزٹ فیس اور معافی نامے کے معاملات طے کیے۔ امریکی ذرائع کے مطابق پاکستان نے نیٹو کو گزرگاہ فراہم کرنے کے لیے اضافی فیس کے مطالبے سے بھی دستبرداری اختیار کی۔
روئٹرز کے مطابق یہ دونوں اتحادی ممالک سپلائی لائن کی بحالی کو دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے خاصا اہم خیال کر رہے تھے۔ امریکی ذرائع کے مطابق ایوان اقتدار سے منسلک بہت سے عہدیدار پاکستان سے معانگی مانگنے کی اس لیے مخالفت کر رہے تھے کہ وہ اسے خطے کے ایسے ملک کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو وسیع امریکی امداد وصول کرکے بھی امریکی مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان سے کھل کر معافی نہیں مانگی گئی، ’’یہ افسوس کے اظہار کا ایک بیان تھا، جس میں معافی سے منسلک الفاظ استعمال کیے گئے۔‘‘ ایسے امکانات موجود تھے کہ اگر سپلائی لائن کی بحالی سے متعلق پاکستان کے ساتھ تصفیہ نہ ہوپاتا تو امریکی قانون ساز اسلام آباد کی مالی معاونت میں بڑے پیمانے پر کمی کر دیتے۔
(sks/ aba (Reuters