1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں اذیتی کیمپ، ہولناک داستانیں

4 جولائی 2012

انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے پتہ چلایا ہے کہ شام میں اذیتی مراکز کا ایک جال پھیلا ہوا ہے۔ اس تنظیم نے ان مراکز کے سابق قیدیوں کے ساتھ انٹرویوز کی دل دہلا دینے والی تفصیلات شائع کی ہیں۔

https://p.dw.com/p/15R7s
تصویر: picture alliance / dpa

منگل کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اس تنظیم نے کئی مراکز کا محل وقوع بتایا ہے، ان مراکز کے ڈائریکٹرز کے نام بتائے ہیں، عینی شاہدوں کے بیانات کے حوالے دیے ہیں اور تشدد کے طریقوں کی باقاعدہ خاکوں کی مدد سے وضاحت کی ہے۔ شام میں تشدد کا نشانہ بننے والوں میں عماد ماہو بھی شامل ہے۔ خود پر بیتنے والے حالات کی تفصیل بتاتے ہوئے اُس نے کہا:’’مجھے 9 جون کو میرے والد کے ہمراہ گرفتار کیا گیا تھا۔ چھ سکیورٹی اہلکار میرے والد کی دکان پر آئے، وہ ہمیں اپنے ساتھ دمشق کے ایک ہیڈکوارٹر میں لے گئے، جہاں مجھے ایک کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا۔‘‘

ماہو پر یہ سب کچھ گزشتہ سال بیتا۔ اگر اُس کی بتائی ہوئی تفصیلات درست ہیں تو پھر وہ اُن متعدد اذیتی مراکز میں سے ایک میں بند تھا، جن کا ذکر ہیومن رائٹس واچ نے شام سے متعلق اپنی 81 صفحات پر مشتمل ایک تازہ رپورٹ میں کیا ہے۔ البتہ اس رپورٹ میں صرف وہ بیانات شامل کیے گئے ہیں، جن پر ایک سو فیصد اعتبار کیا جا سکتا تھا۔ ان بیانات کو مواصلاتی سیاروں سے لی گئی تصاویر کی مدد سے بھی جانچا گیا اور قیدیوں سے اُن کی کوٹھڑیوں کے خاکے بھی بنوائے گئے۔ عماد ماہو نے اپنی کوٹھڑی کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا:’’مجھےسترہ دیگر شامیوں کے ساتھ بند کر دیا گیا تھا۔ جگہ بہت تنگ تھی۔ ہم نہ تو اچھی طرح سے سانس لے سکتے تھے اور نہ ہی لیٹ سکتے تھے۔‘‘

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق شام کے دو درجن سے زیادہ معلوم اذیتی مراکز میں قیدیوں پر وحشیانہ تشدد کیا جاتا ہے
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق شام کے دو درجن سے زیادہ معلوم اذیتی مراکز میں قیدیوں پر وحشیانہ تشدد کیا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ان قیدیوں کو بجلی کے جھٹکے لگائے گئے، لاٹھیوں سے مارا پیٹا گیا، جلایا گیا اور موت کی نمائشی سزائیں دے کر ذہنی اذیت سے دوچار کیا گیا۔ الجزیرہ ٹی وی چینل سے باتیں کرتے ہوئے عماد ماہو نے اس حوالے سے اپنے تجربات کچھ یوں بتائے:’’انہوں نے میرے چہرے، کمر اور گھٹنوں پر ضربیں لگائیں اور مجھے بجلی کے جھٹکے دیے۔ پھر وہ میرے والد کو لے کر آئے اور میرے سامنے اُسے مارا پیٹا۔ وہ میری مزاحمت کو ختم کر دینا چاہتے تھے۔‘‘

’ان قیدیوں کو بجلی کے جھٹکے لگائے گئے، لاٹھیوں سے مارا پیٹا گیا، جلایا گیا اور موت کی نمائشی سزائیں دے کر ذہنی اذیت سے دوچار کیا گیا‘
’ان قیدیوں کو بجلی کے جھٹکے لگائے گئے، لاٹھیوں سے مارا پیٹا گیا، جلایا گیا اور موت کی نمائشی سزائیں دے کر ذہنی اذیت سے دوچار کیا گیا‘تصویر: dpa

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق شام میں گیارہ گیارہ سال تک کے بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عماد ماہو کے مطابق اُس نے قید کے دوران ایک پندرہ سالہ لڑکا بھی دیکھا، جسے بچہ ہونے کے باوجود زدوکوب کیا گیا اور بجلی کے جھٹکے لگائے گئے۔ ماہو کے مطابق اُس بچے کے جسم پر زخموں کے نشان اُس نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ ماہو نے مزید بتایا:’’وہ مجھ سے یہ اگلوانا چاہتے تھے کہ مَیں انقلاب کے بارے میں کیا جانتا ہوں، اِس تحریک کو کیسے منظم کیا جا رہا ہے، کون فلمیں انٹرنیٹ پر جاری کرتا ہے اور کیسے میڈیا کے ساتھ مل کر کام کیا جا رہا ہے۔‘‘

رہائی ملنے کے بعد ماہو فرار ہو کر اردن چلا گیا۔ آیا وہ حقیقت بیان کر رہا ہے، اس بات کی تصدیق مشکل ہے۔ ماہو کے مطابق بشار الاسد کو گرفتار کر کے عدالت کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے اور اُس کے کیے کا حساب لیا جانا چاہیے۔

J.Wiening/aa/aba