بھارت کی طویل ترین شاہراہ، ’ہنوز دلی دور است‘
26 جون 2012آٹھ لین پر مشتمل بھارت کی اس طویل ترین ایکسپریس وے نے ملک کی ایک انتہائی غریب اور آبادی کے لحاظ سے گنجان آباد ترین ریاست اترپردیش کو ملکی دارالحکومت نئی دہلی سے ملانا ہے۔ اس کی کُل لمبائی 1050 کلومیٹر بنتی ہے۔ گنگا ایکسپریس وے کے حامیوں کے مطابق یہ شاہراہ نہ صرف اترپردیش کی قسمت بدلنے میں معاون ہوگی بلکہ سفر کی طوالت کم ہوجانے کے باعث دو کروڑ سے زائد لوگوں اور علاقائی صنعت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
تاہم اس شاہراہ کی تعمیر کی راہ میں بہت سے مشکلات حائل ہیں۔ اس سڑک کی نذر ہونے والی زمینوں کے مالک کسانوں کی مخالفت کے علاوہ ایک بھارتی عدالت کی طرف سے ماحولیات کو پہنچنے والے متوقع نقصانات کے حوالے سے ایک درخواست پر 2009ء میں جاری کردہ حکم امتناعی بھی اس شاہراہ کی تکمیل کے راستے میں حائل ہے۔
اس شاہراہ کے حوالے سے مشاورت فراہم کرنے والے ادارے ’بین ایک کمپنی‘ سے تعلق رکھنے والے گوپال شرما کے مطابق، ’’یہ ان منصوبوں میں سے ایک ہے جو علاقے کا ترقیاتی نقشہ ہی بدل کر رکھ سکتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو اپنی وہ زمینیں فروخت کرنے پر کیسے راضی کیا جائے جنہیں ان کے آباؤ اجداد کئی صدیوں سے آباد کیے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ ان زمینوں کے عوض مالی فائدہ حاصل کرنے کی بجائے اپنا روایتی لائف اسٹائل جاری رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
گنگا ایکسپریس وے کی راہ میں حائل یہ دشواریاں جہاں ایک طرف بھارت کے روایتی انفراسٹرکچر کو بدلنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی نمائندگی کرتی ہیں تو دوسری جانب یہ وزیراعظم منموہن سنگھ کی طرف سے 200 سے زائد بڑے پراجیکٹس کی جلد تکمیل کے وعدوں کا امتحان بھی ہے۔
نئی دہلی حکومت کی جانب سے اگلے پانچ سالوں کے دوران ملکی انفراسٹرکچر کو بہتر کرنے کے لیے ایک ٹریلین امریکی ڈالرز کے برابر رقم مختص کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس میں سڑکوں، عمارات اور ایئرپورٹس کی تعمیرکے علاوہ، ملک کو درپیش توانائی کے بحران کے خاتمے کے منصوبے شامل ہیں۔ تاہم گنگا ایکسپریس وے کو درپیش مسائل سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملکی حکومت کے یہ منصوبے شاید جلد پایہ تکمیل تک نہ پہنچ پائیں۔
گنگا ایکسپریس وے کا منصوبہ پیش کرنے والوں میں ایک، اترپردیش حکومت کے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ایک بہت ہی زبردست منصوبہ تھا، لیکن المیہ یہ ہے کہ اس کی تکمیل کی راہ میں سیاست حائل ہو گئی ہے۔ لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ کونسی چیز ریاست، لوگوں اور ملک کے لیے بہتر ہے۔‘‘
aba/at (Reuters)