1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’انتہا پسند قاتل بریوک نے زخم ہرے کردیے‘

20 اپریل 2012

ناورے میں 77 شہریوں کے قاتل آندرس بیہرنگ بریوک نے سفاکانہ انداز سے اپنے جرم کی منصوبہ بندی بیان کی۔ اس انتہا پسند کے بیان نے مرنے والوں کے لواحقین کے زخم تازہ کردیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/14i7s
تصویر: Reuters

یورپ میں تارکین وطن بالخصوص مسلمانوں کے وجود کے سخت مخالف بریوک کے مقدمے کی سماعت اوسلو کی ضلعی عدالت میں ہورہی ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے عدالت کو بتایا کہ حکومتی جماعت کے حامی نوجوانوں کو موت کی گھ‍اٹ اتارنے سے قبل اس نے اپنے آپ کو ہر لحاظ سے تیار کیا۔ بریوک کا کہنا تھا کہ اس نے نشانہ پکا کرنے کے لیے ویڈیو گیمز کھیلیں، اپنی جسمانی طاقت بڑھانے کے لیے ادویات استعمال کیں اور حتیٰ اپنے جذبات ٹھنڈے رکھنے کے لیے بھی ڈی۔ ایموشنلائزر استعمال کیں۔

بریوک نے بتایا کہ اس نے حکومت کے مقتول حامیوں کے کیمپ پر شعلے برسانے والے ہتھیاروں سے بھی حملہ کرنے کا سوچا تھا۔

یہ سب سن کر نوجوان مقتولین کے لواحقین کا غم مزید بڑھ گیا۔ ان کی نمائندگی کرنے والے وکیل یوون لارسن نے عدالت کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ مرنے والوں کے ورثاء اسے ایک شیطان اور خطرناک شخص کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جس نے ان کے زخم تازہ کردیے ہیں۔ بریوک نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ وہ اس مشن کے لیے اتنا سنجیدہ تھا کہ وہ طویل عرصے تک بیرونی دنیا سے رابطہ کاٹ کر محض جنگ و جدل والی ویڈیو گیمز کھیلتا رہا تھا۔ اس نے کہا کہ کئی سال تک وہ روزانہ قریب 16 گھنٹے گیمز کھیلتا رہتا تھا۔

Norwegen Utøya Terror Angehörige der Opfer auf Utöya
مرنے والوں کے لواحقین اوٹووا کے جزیرے کا دورہ کرکے مارے جانے والوں کی یاد تازہ کرتے ہوےتصویر: dapd

ٹیکساس ای اینڈ ایم انٹرنیشنل یونیورسٹی سے وابستہ ماہر نفسیات کرسٹوفر فرگوسن کا کہنا ہے کہ یہ بات حقیقت ہے کہ اس طرح کی ویڈیو گیمز سے visuospatial cognition بہتر ہوتی ہے تاہم فی الحال یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ آیا بریوک نے واقعی اس کی مدد سے اپنا نشانہ بہتر کیا ہو۔ ’’ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جس جزیرے پر اس نے نوجوانوں کو نشانہ بنایا وہاں کسی کے پاس بھاگنے کا موقع بھی نہیں تھا۔‘‘

درجنوں شہریوں کے اجتماعی قتل کا اعتراف کرنے والے بریوک کے مقدمے کو نارے میں بھرپور میڈیا کوریج دی جارہی ہے۔ بریوک اپنے آپ کو جدید دور کا صلیبی جنگجو سمجھتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ یورپ کو اسلامی نوآبادی بنانے سے بچانا چاہتا ہے اسی لیے اس نے بائیں بازوں کے حمایت یافتہ نوجوانوں کو قتل کیا جو تارکین وطن کے حامی ہیں۔ یاد رہے کہ بریوک نے گزشتہ برس جولائی میں اوسلو شہر میں بم حملہ کرکے آٹھ اور قریبی جزیرے پر فائرنگ کرکے 69 شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔

اوسلو کی عدالت میں مجرم ثابت ہونے پر بریوک کو زیادہ سے زیادہ 21 برس قید یا پھر اس وقت تک قید کی سزا ہوسکتی ہے جب تک اسے معاشرے کے لیے خطرہ سمجھا جائے گا۔ ذہنی طور پر پاگل ثابت ہونے کی صورت میں اسے نفسیاتی علاج معالجے کے لیے بھیجا جاسکتا ہے۔

sk/ai ap