سعودی عرب کا مخالفین سے ’آہنی ہاتھ‘ سے نمٹنے کا اعلان
21 فروری 2012سعودی حکومت نے ملک میں ہونے والے مظاہروں اور شورش کے پیچھے ’بیرونی‘ ہاتھ کا بھی ذکر کیا۔ مبصرین کے مطابق ’بیرونی‘ ہاتھ سے سعودی عرب کی مراد عموماً ایران ہوتی ہے۔ ایران اور سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و وسوخ بڑھانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔
سعودی عرب میں گزشتہ برس سے جو بغاوت اور شورش جاری ہے اس کا مرکز سلطنت کا مشرقی صوبہ ہے جہاں اہل تشیع مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کی اچھی خاصی تعداد آباد ہے۔ سعودی عرب میں شیعہ اقلیت کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ وہابی مسلک سے تعلق رکھنے والے حکمران تعصب سے کام لیتے ہیں۔
گزشتہ برس ہونے والے مظاہروں کو سعودی حکومت نے سختی سے کچل دیا تھا۔ شیعہ اقلیت سعودی حکومت پر الزام عائد کرتی ہے کہ سعودی حکومت نے مظاہرین کے خلاف تشدد بھی کیا تھا۔
اب منگل کے روز سعودی وزارت داخلہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ ریاست کا حق ہے کہ وہ ان عناصر کے خلاف کارروائی کرے جو کہ ریاست کے خلاف ہیں۔
یہ بیان گزشتہ ہفتے سعودی مشرقی صوبے کے علاقے قطیف میں دیے گئے ایک خطبے کے جواب میں سامنے آیا ہے، جس میں حکومت پر مظاہرین کو ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ قطیف میں شیعہ آبادی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں گزشتہ برس مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب حکومت نے مخالف سیاسی کارکنوں کو بغیر الزام کے گرفتار کر لیا تھا۔
سعودی حکومت کے ماضی کے بیانوں کے مطابق سلطنت میں نومبر کے مہینے میں چار، جنوری میں ایک، اور رواں ماہ ایک شخص ہلاک ہوا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ شیعہ اور سنی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں میں کوئی تفریق نہیں کرتی، تاہم شیعہ اقلیتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ تعلیم، روزگار، حتیٰ کہ مذہبی عبادات کی ادائی میں ان کے ساتھ تعصب برتا جاتا ہے۔
رپورٹ: شامل شمس ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: شادی خان سیف