1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

CITES کے 40 برس اور بنکاک کانفرنس

4 مارچ 2013

بقا کے خطرے سے دوچار جنگلی جانوروں اور پودوں کی انواع کی بین الاقوامی تجارت سے متعلق کنونشن CITES کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں ایک بین الاقوامی کانفرنس بھی منعقد ہو رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/17q7s
تصویر: picture-alliance/dpa

اس کنونشن کی منظوری تین مارچ 1973ء کو عمل میں آئی تھی اور یوں اس سال تین مارچ کو اس بین الاقوامی معاہدے کی منظوری کے ٹھیک چالیس برس مکمل ہونے کے موقع پر بنکاک میں 16 ویں CITES کانفرنس شروع ہوئی ہے، جو 14 مارچ تک جاری رہے گی۔

CITES کنونشن بقا کے خطرے سے دوچار جنگلی حیات کی تجارت کی نگرانی کرتا ہے اور اس تجارت کو محدود بنا سکتا ہے یا اس پر مکمل پابندی بھی عائد کر سکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری یہ ہے کہ متعلقہ جانور یا پودے کا نام اس کنونشن کی مخصوص فہرست میں شامل ہو۔

نیلے پروں والی ٹونا مچھلی کا شکار اتنا زیادہ کیا گیا ہے کہ بحیرہء روم میں اب اس کے ذخائر اصل مقدار کا صرف دسواں حصہ رہ گئے ہیں
نیلے پروں والی ٹونا مچھلی کا شکار اتنا زیادہ کیا گیا ہے کہ بحیرہء روم میں اب اس کے ذخائر اصل مقدار کا صرف دسواں حصہ رہ گئے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

اب تک اس کنونشن پر 177 ممالک اپنے دستخط ثبت کرتے ہوئے اس کی منظوری دے چکے ہیں۔ مختلف طرح کی روایات اور مفادات کے حامل یہی ملک مل کر یہ بھی طے کرتے ہیں کہ کون کون سی انواع کا تحفظ ضروری ہے۔ کسی نئے جانور یا پودے کو اس فہرست میں شامل کروانے کے لیے ارکان کی دو تہائی اکثریت کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ آج کل اس فہرست میں شامل جانوروں کی تعداد تقریباً پانچ ہزار جبکہ پودوں کی تقریباً 29 ہزار ہے۔

بنکاک میں جاری کانفرنس میں سمندروں سے حد سے زیادہ مچھلیاں پکڑنے کے رجحان پر خاص طور پر بات کی جا رہی ہے۔ زیادہ مچھلیاں پکڑے جانے کی وجہ سے سمندروں میں مخصوص مچھلیوں کے ذخائر میں بڑے پیمانے پر کمی دیکھی جا رہی ہے۔ مثلاً بحیرہء روم میں نیلے پروں والی ٹونا مچھلی کے ذخائر ابتدائی مقدار کا صرف دَسواں حصہ باقی رہ گئے ہیں۔ پکڑی جانے والی ٹونا مچھلی زیادہ تر جاپان جاتی ہے، جہاں اِسے مقبول جاپانی ڈِش سُوشی میں استعمال کیا جاتا ہے۔

قطبین پر برف پگھلنے سے برفانی ریچھ بقا کے خطرے سے دوچار ہو گیا ہے
قطبین پر برف پگھلنے سے برفانی ریچھ بقا کے خطرے سے دوچار ہو گیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

سن 2010ء میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقدہ CITES کانفرنس میں نیلے پروں والی ٹونا مچھلی کی تجارت پر پابندی عائد کرنے کی درخواست پیش کی گئی تھی، جو بالخصوص جاپان اور چین کی مخالفت کے باعث ناکام ہو گئی تھی۔ جرمن وزارتِ ماحولیات میں انواع کے تحفظ سے متعلقہ امور کے ماہر گیرہارڈ آدمز نے ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے بتایا:’’جن رکن ممالک نے درخواست کے خلاف ووٹ دیے، اُن میں سرِفہرست جاپان تھا، جس نے دیگر ممالک کو بھی اِس درخواست کی مخالفت کرنے کی ترغیب دی۔‘‘

تحفظ ماحول کی بین الاقوامی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ WWF کے انواع کے تحفظ سے متعلقہ امور کے ماہر فولکر ہومز کے مطابق جاپانی بہت حساس ہیں اور یہ پسند نہیں کرتے کہ اُن پر سمندر سے جانور پکڑنے یا باہر سے کچھ درآمد کرنے کے سلسلے میں کوئی پابندیاں لگائی جائیں۔

انواع کے تحفظ کے سلسلے میں عالمی تجارتی تنظیم WTO کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے۔ فری یونیورسٹی برلن میں ماحول پر تحقیق کے مرکز کی خاتون سربراہ میرانڈا شروئرز بتاتی ہیں:’’متنازعہ معاملات میں عالمی تجارتی تنظیم پر ایسے فیصلے کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے، جو ماحول دوست ہوں۔ کبھی کبھی یہ دباؤ اپنا اثر دکھا جاتا ہے لیکن ہمیشہ نہیں۔ اس شعبے میں عالمی تجارتی تنظیم کا موجودہ کردار اُس کے ماضی کے کردار کے مقابلے میں بہت بہتر ہے لیکن ابھی بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔‘‘

افریقہ میں جنگلی جانوروں کو بے رحمانہ طریقے سے شکار کیا جا رہا ہے
افریقہ میں جنگلی جانوروں کو بے رحمانہ طریقے سے شکار کیا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

بہت سے ممالک آج بھی ایسے ہیں، جہاں انواع کے تحفظ کے لیے قومی سطح پر کوئی قوانین موجود نہیں ہیں یا پھر اُن پر عملدرآمد کی صورتِ حال اچھی نہیں ہے۔ ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ اگرچہ خود CITES کنونشن کے اندر بھی مزید بہتری کی گنجائش ہے تاہم مجموعی طور پر گزرے چالیس برسوں کے دوران اس کنونشن نے انواع کے تحفظ کے سلسلے میں ایک مثبت کردار ادا کیا ہے۔

بنکاک میں جاری سولہویں CITES کانفرنس میں ماہی گیری کے ساتھ ساتھ براعظم افریقہ میں جنگلی جانوروں کو ہلاک کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان پر بھی بات کی جا رہی ہے۔ وہاں ایسے منظم جرائم پیشہ گروہ خاص طور پر ہاتھیوں اور گینڈوں کے شکار میں مصروف ہیں، جو اکثر فوجی ساز و سامان سے لیس ہوتے ہیں۔ گیرہارڈ آدمز کے مطابق ’ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت کا حجم منشیات یا پھر انسانوں کی تجارت کے حجم کے برابر پہنچ چکا ہے‘۔

قطب شمالی اور قطب جنوبی پر برف پگھلنے کے نتیجے میں برفانی ریچھ کی بقا خطرے سے دوچار ہوتی نظر آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنکاک کانفرنس میں ریاست ہائے متحدہ امریکا ایک ایسی قرارداد پیش کرنے جا رہا ہے، جس کا مقصد برفانی ریچھ کی کھال کی تجارت پر پابندی عائد کرنا ہے۔

J.Fraczek/aa/km