1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

23 اپریل کو عالمی یومِ کتاب

Annabella Steffes / امجد علی22 اپریل 2014

اقوام متحدہ کے تعلیم، سائنس اور ثقافت کے ذیلی ادارے یونیسکو کے زیر اہتمام منعقدہ عالمی یومِ کتاب کے موقع پر جرمنی بھر میں ادبی نشستوں میں کہانیاں پڑھ کر سنائی جائیں گی۔ یہ دن تقریباً بیس برسوں سے ہر سال منایا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1BmCO
تصویر: CC-BY-Günter Rubik

جدید ڈیجیٹل ذرائع ابلاغ کی وجہ سے لوک داستانوں میں لوگوں کی دلچسپی کم ضرور ہوئی ہے لیکن اگر کوئی اچھا پڑھ کر سنانے والا ہو تو لوگ آج بھی شوق سے لوک داستانیں سنتے ہیں۔

بچے دنیا کے کسی بھی کونے میں بستے ہوں، وہ خاص طور پر رات کو سونے سے پہلے اپنے دادا دادی، نانا نانی یا اپنے ماں باپ سے کسی کہانی کی فرمائش ضرور کریں گے۔ داستانیں سنانا بھی ایک فن ہے، جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ کہانیاں تجربات اور اَقدار کو اگلی نسلوں تک منتقل کرتی ہیں اور لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہیں۔ جرمن شہر وُوپرٹال میں داستانوں پر تحقیق کے مرکز کے بانی ماتیاس مارٹینیس کہانیوں کو کسی بھی ثقافت کا آغاز قرار دیتے ہیں: ’’تمام انسانی برادریوں کے پاس کوئی ایسا قصہ ہوتا ہے، جس کی بنیاد پر وہ وجود میں آئی تھیں، یہ قصے ہی دراصل داستانیں ہیں، جن میں انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر رکھنے کی زبردست قوت ہوا کرتی ہے۔‘‘

مشائیل سِرک گزشتہ پندرہ برسوں سے جرمنی میں لوگوں کو داستانیں سنا رہے ہیں
مشائیل سِرک گزشتہ پندرہ برسوں سے جرمنی میں لوگوں کو داستانیں سنا رہے ہیںتصویر: Achim Gress

لوک داستانوں کی ابتدا یونان میں ہوئی۔ صدیوں تک ایک سے دوسرے سینے میں منتقل ہونے والی ان داستانوں کو کہیں آٹھویں صدی عیسوی میں ضبطِ تحریر میں لانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اٹھارویں صدی میں داستانوں کو زبانی یاد کرنے کی جگہ کتابوں میں سے پڑھ کر سنانے کا رواج چل نکلا۔ جب زیادہ سے زیادہ لوگ خود کتابیں پڑھنے لگے تو زبانی کہانیوں کی ایک سے دوسرے شخص کو منتقلی کی اہمیت بھی کم ہونے لگی۔ جرمنی میں دوسری عالمی جنگ کے بعد لوک داستانوں میں عام لوگوں کی دلچسپی کم ہو جانے کی وجہ یہ بھی تھی کہ نازی سوشلسٹوں نے ان داستانوں کو ناجائز طور پر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا۔

اس کے بعد ڈیجیٹل میڈیا کا دور آیا لیکن معلومات کے تمام تر سیلاب اور تمام تر جدید ذرائع ابلاغ کے باوجود جرمنی میں داستان گو آج بھی موجود ہیں۔ اِنہی میں سے ایک مشائیل سِرک بھی ہیں، جو گزشتہ پندرہ برسوں سے لوگوں کو داستانیں سنا رہے ہیں: ’’سب سے بڑا فن ہے، لوگوں میں دلچسپی پیدا کرنا، اُنہیں قریب لے کر آنا کیونکہ زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کہانیاں تو دراصل دیو مالائی داستانیں ہوتی ہیں، جو ہوتی ہی بچوں کے لیے ہیں۔‘‘

آج کل کے تیز رفتار دور میں کہانیاں سنانا ایک سست رفتار فن ہے۔ اگر آپ کہانی سننا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اُس کے لیے وقت بھی نکالنا ہو گا۔ کہانی سناتے ہوئے پہلے اُس کا ایک مخصوص ماحول تشکیل دینا پڑتا ہے۔ کہانی سننے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آپ اپنی قوت متخیلہ کو آزاد چھوڑ دیں۔ سِرک کہتے ہیں کہ محض کتاب میں سے دیکھ کر پڑھنے کو کہانی سنانا نہیں کہتے بلکہ آواز کے زیر و بم اور چہرے کے تاثرات سے کہانی کو مجسم شکل میں سننے والے تک پہنچانا اصل فن ہوتا ہے۔

مشرقی جرمن شہر لائپسگ میں ہر سال گرمیوں میں دَس روز کے لیے ریڈیو ڈرامے کا میلہ منعقد کیا جاتا ہے، جہاں لوگ کوئی داخلہ ٹکٹ ادا کیے بغیر کہانیوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں
مشرقی جرمن شہر لائپسگ میں ہر سال گرمیوں میں دَس روز کے لیے ریڈیو ڈرامے کا میلہ منعقد کیا جاتا ہے، جہاں لوگ داخلہ ٹکٹ ادا کیے بغیر کہانیوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیںتصویر: Hörspielsommer e.V.

کہانی سنانے کی ایسی نشستوں میں عام طور پر تقریباً تیس افراد شریک ہوتے ہیں تاہم سِرک بتاتے ہیں: ’’میرے سامنے ساٹھ لوگ بھی بیٹھے ہوں تو بھی بالکل گھر کا سا ماحول ہوتا ہے۔ مَیں اپنے سامنے بیٹھے لوگوں کی آنکھوں میں جھانک کر کہانیاں سناتا ہوں۔‘‘

وقت کے ساتھ ساتھ داستان گو کا کردار ریڈیو ڈرامے نے سنبھال لیا، جس میں کہانی کو مختلف طرح کے شور اور مختلف کرداروں کی لمحہ لمحہ بدلتی آوازوں کے ساتھ ملا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جرمنی میں 1930ء کے عشرے سے ریڈیو ڈرامے کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہونا شروع ہوئی، جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی چلی گئی تھی تاہم نئی ہزاری کے آغاز سے ریڈیو ڈرامے میں ایک بار پھر لوگوں کی دلچسپی بڑھنے لگی ہے۔

پاؤل کونراڈ گزشتہ بارہ برسوں سے مشرقی جرمن شہر لائپزگ میں ریڈیو ڈرامے کا سالانہ میلہ منظم کر رہے ہیں۔ دَس روز تک جاری رہنے والے اس میلے میں لوگ بغیر ٹکٹ شرکت کر سکتے ہیں۔ یہاں بھی انسان کا ذہن ہی پردہء اسکرین کا کام دیتا ہے اور قوت متخیلہ کے ذریعے کہانیوں کا لطف لیا جاتا ہے۔ کونراڈ کہتے ہیں: ’’کچھ دیکھے بغیر اور صرف سنتے ہوئے قوت متخیلہ کو تحریک دی جاتی ہے اور یوں براہِ راست سننے والوں کے تصورات کی دنیا تک پہنچا جاتا ہے۔ یوں سمجھ لیں، سر کے اندر ایک سینما گھر بن جاتا ہے۔‘‘ یہی ریڈیو ڈرامہ اب آگے چل کر آڈیو بُکس کی صورت میں مقبولیت کی نئی بلندیوں کو چھُو رہا ہے۔