1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہیمبرگ کے لیے تاریخی دن

14 نومبر 2012

جرمن شہری ریاست ہیمبرگ کی حکومت اور مسلم تنظیموں کے مابین حقوق اور ذمہ داریوں کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس طرح ہیمبرگ سرکاری سطح پر اس نوعیت کا معاہدہ کرنے والی پہلی جرمن ریاست بن گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/16ip0
تصویر: picture-alliance/dpa

ہیمبرگ میں طے پانے والے اس معاہدے کے تحت مسلم تہواروں کو سرکاری سطح پر تسیلم کر لیا گیا اور اسکولوں میں اسلامیات کی تدریس کے نظام کو مزید بہتر بنانے پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ اب مسلم شہری مذہبی تہواروں پر چھٹیاں لے سکیں گے اور طالب علموں کو بھی اسکولوں سے چھٹی کرنے کا حق حاصل ہو گا۔

خواتین اور ہم جنس پرستوں کے ساتھ کسی بھی سطح پر امتیازی سلوک کو بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس سمجھوتے کی رو سے مساجد اور ثقافتی مراکز کی تعمیر کو مزید سہل بنانے کے علاوہ تابوت کے بغیر تدفین کی اجازت بھی دی گئی ہے۔

Betende Muslime in der Kölner DITIB-Moschee
اس سمجھوتے کی رو سے مساجد اور ثقافتی مراکز کی تعمیر کو مزید سہل بنانے کے علاوہ تابوت کے بغیر تدفین کی اجازت بھی دی گئی ہےتصویر: picture alliance/dpa

ہیمبرگ میں تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار مسلمان اور علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے پچاس ہزار افراد آباد ہیں۔ اس معاہدے پر چار نمائندہ تنظیموں نے دستخط کیے ہیں۔ ان میں علوی فرقے کے نمائندے، ترک برادری کی تنظیم ’ DITIB‘، کونسل آف اسلامک کمیونیٹیز ’شوری‘ اور فیڈریشن آف اسلامک کلچر سینٹر ’ VIKZ ‘ شامل ہیں۔ علوی فرقہ زیادہ تر ترک نژاد افراد پر مشتمل ہے اور ان کا شمار آزاد خیال گروپوں میں ہوتا ہے۔

اس حوالے سے ہیمبرگ کے سٹی ہال میں خصوصی طور پر ایک تقریب منعقد ہوئی۔ اس موقع پر شہر کے سوشل ڈیموکریٹ میئر اولاف شولز نے کہا کہ یہ معاہدہ اس شہری ریاست کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔’’ اس معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے ہم نے شہر کی سماجی بنیادوں کو مزید مستحکم بنایا ہے‘‘۔ DITIB کے ذکریا التوگ کے بقول یہ صرف ہیمبرگ کے لیے ہی نہیں بلکہ جرمنی کے لیے بھی ایک تاریخی دن ہے۔

ہیمبرگ کے پروٹسٹنٹ اور کیتھولک بشپس نے بھی اس معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ دستخط کے باوجود ہیمبرگ کی پارلیمان سے اس معاہدے کی منظوری ہونا ابھی باقی ہے۔ پارلیمان میں سوشل ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے جبکہ اپوزیشن کرسچن ڈیموکریٹس بھی اس سمجھوتے کی تائید کر چکے ہیں۔

ہیمبرگ میں اس حوالے سے مذاکرات شروع کرنے کی تجویز 2006ء میں سابق میئر اولے فان بوئسٹ نے پیش کی تھی۔ اس سے قبل 2005ء میں ہیمبرگ کی حکومت نے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ چرچ کے ساتھ بھی اسی نوعیت کے معاہدے کیے تھے۔ جبکہ2007ء میں یہودی برادری کے ساتھ بھی ایک سمجھوتہ طے پایا تھا۔ جرمنی کی دیگر ریاستیں بھی ہیمبرگ کی طرز پر مسلم برادری کی نمائندوں کے ساتھ ایسے ہی معاہدے کرنا چاہتی ہیں۔

ai / ab ( dpa, AFP)