1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہیروں کی تجارت کی اجازت ، زمبابوے کی معیشت میں بہتری کا امکان

عدنان اسحاق 1 نومبر 2013

زمبابوے میں غربت اور بھوک کا دور دورہ ہے۔ تاہم اب براعظم افریقہ کے جنوب میں واقع اس ملک کے لیے امید کی ایک کرن پیدا ہوئی ہے۔ یورپی یونین نے زمبابوے سے ہیروں کی تجارت پر عائد پابندی اٹھا لی ہے۔

https://p.dw.com/p/1AAAV
تصویر: AP

مشرقی زمبابوے میں مارانگا نامی علاقے میں واقع ہیروں کی کانوں کاجب بھی تذکرہ ہوتا ہے تو اس نایاب پتھر کے تاجروں کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں۔ اس علاقے کا رقبہ جرمن دارالحکومت برلن کے برابر ہے اور یہ ہیروں کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دنیا میں ہیروں کی سب سے بڑی کانیں ہیں۔ زمبابوے میں کان کنی کے ادارے کے مطابق اس سال مارانگا سے تقریباً 17 ملین کیرٹ کے برابر ہیرے نکالے جائیں گے۔ تاہم اب زمبابوے یہ قیمتی پتھر ایک مرتبہ پھر یورپی منڈی میں فروخت کر سکے گا۔ اس اقدام سے بیلیجئم کے شہر اینٹورپ کو سب سے زیادہ فائدہ ہو گا۔ یہ شہر دنیا بھر میں ہیروں کی تجارت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اینٹورپ میں ہیروں کی تجارت کے بین الاقوامی مرکز کی ترجمان کارولین ڈے وولف کا خیال ہے کہ اگلے برسوں کے دوران عالمی منڈی میں ہیروں کی پیداوار کے حوالے سے زمبابوے کا حصہ 25 فیصد تک پہنچ جائے گا۔

Simbabwe Geldschein Inflation 100 Milliarden Dollar
تصویر: AP

یورپی یونین نے اس ملک پر اس وقت پابندیاں عائد کی تھیں، جب 2008ء کے صدارتی انتخابات کے بعد حکومت کی جانب سے حزب اختلاف پر مظالم ڈھائے جانے کے واقعات منظر عام پر آئے۔ رواں برس ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو بھی افریقی یونین اور ترقیاتی تنظیم برائےجنوبی افریقی ممالک نے متنازعہ قرار دیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود یورپی وزرائے خارجہ نے پابندیاں نرم کرنے کا اعلان کیا۔ یورپی یونین میں خارجہ امور کے ادارے کے ترجمان مشائیل من کے بقول بے شک اس ملک میں جمہوری اقدار کا فقدان ہے لیکن ساتھ ہی معاملات میں معمولی سے بہتری بھی ہوئی ہے۔ یورپی یونین چاہتی ہے کہ اس طرح ہرارے حکومت کو اقتصادی شعبے میں اصلاحات پر رضامند کیا جائے تاکہ ہیروں کی تجارت سے عوام کی زندگیوں میں بھی بہتری آ سکے۔ ابھی تک ان قیمتی پتھروں کے کاروبار سے ہونے والے منافع سے عوام کو بہت کم ہی فائدہ ہی حاصل ہوتا آیا ہے۔

زمبابوے کی معیشت کا کوئی پرساں حال نہیں ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد بھوک کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کے انسداد بھوک کے ادارے کے مطابق اگر صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو اگلے چند ماہ کے دوران زمبابوے کے تقریباً 2.2 ملین شہریوں کو عالمی امداد کی ضرورت ہو گی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے یورپی یونین کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ گلوبل وٹنس نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق ہرارے حکومت ہیروں کی کانوں سے ہونے والی آمدنی کو جمہوریت مخالف سرگرمیوں میں استعمال کرے گی۔ گلوبل وٹنس کے بقول یورپی یونین کو پارلیمانی انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کے الزامات کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد ہی پابندیوں کو اٹھانا چاہیے تھا۔