ہم جنس پرستی پر پابندی عائد کی جائے، بھارتی وزارت داخلہ
23 فروری 2012بھارتی ہوم منسٹری کے مطابق ہم جنس پرستی غیر اخلاقی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر فطری ہے اور اس سے ایچ آئی وی کا وائرس بھی پھیلتا ہے۔ سپریم کورٹ اس وقت دہلی ہائی کورٹ کی طرف سے 2009ء میں دیے گئے اُس تاریخی فیصلے کے خلاف درجن بھر آئینی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے، جس کے تحت بھارت میں پہلی مرتبہ ہم جنس پرستی کو مجرمانہ فعل سے نکالتے ہوئے اسے ’انفرادی انتخاب‘ قرار دیا گیا تھا۔
ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیےکام کرنے والے سرکردہ کارکنان نے دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو ایک جیت قرار دیا تھا، کیونکہ اس سے قبل بھارتی قانون کے مطابق ہم جنس پرستی ایک مجرمانہ فعل تھا۔
جمعرات کو ہوم منسٹری کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ جنرل پی پی ملہوترا نے سپریم کورٹ میں بحث کرتے ہوئے ہم جنس پرستی کو ’غیر اخلاقی اور بھارتی تہذیب و معاشرت‘ کے خلاف قرار دیا۔ انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ مخصوص عمل نہ صرف غیر فطری ہے بلکہ اس سے ایچ آئی وی کا وائرس بھی پھیلتا ہے۔
بھارتی وزارت داخلہ ملک میں ہم جنس پرستی پر قانونی پابندی چاہتی ہے کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ اس سے بچوں سے زیادتی کو روکنے میں مدد ملے گی اور دوسرا یہ کہ بھارتی سماج کا ایک بڑا حلقہ اس عمل کے خلاف ہے۔ ملہوترا نے مزید کہا کہ ملکی قوانین معاشرتی اقدار اور روایات سے متصادم نہیں ہو سکتے۔
بھارت میں قریب ڈیرھ سو سالہ پرانے اس قانون کے مطابق ہم جنس پرستی کے مرتکب افراد کو دس سال تک سزائے قید سنائی جا سکتی تھی۔ اگرچہ اس دوران بہت کم افراد کو سزائیں سنائی گئیں تاہم ہم جنس پرستوں کے سرکردہ کارکنوں کے مطابق پولیس اس قانون کو ہراساں اور دھمکانے کے لیے استعمال کرتی تھی۔
بھارت میں ایک نجی ٹیلی وژن کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق وہاں کی 73 فیصد عوام نے کہا ہے کہ ملک میں ہم جنس پرستی کو غیر قانونی ہونا چاہیے۔ بھارت کے دیہی علاقوں میں زیادہ تر لوگ ہم جنس پرستی کو ایک ’ذہنی بیماری‘ قرار دیتے ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: امتیاز احمد