1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوگل ميپ کے ايک جزيرے کا کوئی وجود نہيں

22 نومبر 2012

آسٹريلوی سائنسدانوں کی ايک ٹيم نے يہ پتہ چلايا ہے کہ گوگل ميپس اور بعض دوسرے مشہور نقشوں ميں بھی ايک ايسا جزيرہ دکھايا گيا ہے جس کا کوئی وجود ہی نہيں ہے۔

https://p.dw.com/p/16o9P
تصویر: Google Maps

ايک طبقات الارضی مہم کے دوران آسٹريليا کے سائنسدانوں نے يہ پتہ چلايا ہے کہ جنوبی بحرالکاہل کا ايک جزيرہ جسے گوگل ميپس کے عالمی نقشوں ميں دکھايا جاتا ہے، کوئی وجود ہی نہيں رکھتا۔ آسٹريلوی سائنسدانوں نے اس پراسرار جزيرے کا سراغ لگانے کی بہت کوشش کی ليکن وہ ناکام رہے۔

گوگل ارتھ اور ورلڈ ميپ ميں يہ جزيرہ سينڈی آئی لينڈ کے نام سے آسٹريليا اور فرانس کے زير حکومت نيو کيليڈونيا کے درميان دکھايا گيا ہے۔ TIMES کے ورلڈ ايٹلس ميں اس جزيرے کو سيبل آئی لينڈ کا نام ديا گيا ہے۔ ايک آسٹريلوی بحری تحقيی جہاز کے موسمياتی نقشوں ميں بھی اس جزيرے کو دکھايا گيا ہے ليکن جب اس جہاز نے جزيرے کو ديکھنے کے ليے سفر کيا تو اُسے بھی يہ جزيرہ کہيں بھی نہيں ملا۔

سڈنی يونيورسٹی کی ڈاکٹر ماريا سيٹون نے جہاز کے 25 روزہ سفر کے بعد خبر ايجنسی اے ايف پی کو بتايا: ’’يہ جزيرہ گوگل ارتھ اور دوسرے نقشوں پر دکھايا گيا ہے اور اس ليے ہم اس کی تصديق کرنا چاہتے تھے ليکن ہميں يہ جزيرہ کہيں نہيں ملا۔ ہم حيران ہيں۔ آخر نقشوں ميں يہ کيوں دکھايا گيا ہے؟‘‘

ياہو، کمپيوٹر، انٹرنيٹ
ياہو، کمپيوٹر، انٹرنيٹتصویر: dapd

اس نظر نہ آنے والے جزيرے پر سوشل ميڈيا ميں بھی بحث شروع ہو گئی ہے۔ اس ميں چارلس لائڈ نے لکھا کہ يہ جزيرہ، ’سينڈی آئی لينڈ‘ ياہو ميپس اور بنگ ميپس ميں بھی دکھايا گيا ہے۔ ايک اور شخص نے لکھا کہ اُس نے فرانس کے ہائڈرو گرافک آفس سے يہ معلوم کرليا ہے کہ حقيقتاً اس جزيرے کا کوئی وجود نہيں ہے اور اسے 1979 منں چارٹس سے مٹا ديا گيا تھا۔

گوگل نے اس بارے ميں کہا کہ وہ اپنے نقشوں کے بارے ميں آراء کو خوش آمديد کہتا ہے اوروہ لوگوں اور مستند ساتھيوں سے ملنے والی معلومات کوگوگل ميپس ميں جگہ دينے کی مسلسل کوشش کرتا رہتا ہے۔ گوگل کے ايک ترجمان نے خبر ايجنسی اے ايف پی کو بتايا کہ وہ قابل اعتماد پبلک اور تجارتی ڈيٹا کی مدد سے اپنے استعمال کرنے والوں کو نقشوں کے بارے ميں تازہ ترين اور بھرپور معلومات فراہم کرتے ہيں۔ ترجمان نے يہ بھی کہا کہ نقشوں اور جغرافيے کے بارے ميں ايک دلچسپ بات يہ ہے کہ دنيا مسلسل تبديل ہو رہی ہے۔

sas,mm/AFP