کراچی میں چھٹی عالمی اردو کانفرنس
کراچی نے لگاتار چھٹے سال عالمی اردو کانفرنس کے کامیاب انعقاد سے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ آئے دن کی بد امنی اور دہشت گردی سے متاثرہ اِس شہر کے باسی تمام تر تشدد کے باوجود اردو زبان سے گہری جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام اٹھائیس نومبر سے لے کر یکم دسمبر تک منعقد ہونے والی اس چار روزہ کانفرنس میں پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے آئے ہوئے مندوبین شریک ہوئے، جن کا کہنا تھا کہ ایسے نامساعد حالات میں اتنی شاندار کانفرنس کا انعقاد کراچی کے شہریوں کے بلند حوصلے کی غمازی کرتا ہے۔
کراچی نے لگاتار چھٹے سال عالمی اردو کانفرنس کے کامیاب انعقاد سے ایک دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ آئے دن کی بد امنی اور دہشت گردی سے متاثرہ اِس شہر کے باسی تمام تر تشدد کے باوجود اردو زبان سے گہری جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ معروف شاعر امجد اسلام امجد کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔
کانفرنس کے پہلے دن جمعرات 28 نومبر کو افتتاحی اجلاس میں سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سید قائم علی شاہ مہمان خصوصی تھے جبکہ مجلسِ صدارت اردو ادب کی ان شخصیات سے مزین تھی، جن کی جگمگاہٹ چاروں دن اس کانفرنس کی تقریبات کو روشن کرتی رہی۔
چھٹی عالمی اردو کانفرنس میں شریک رضا علی عابدی (دائیں) اور شمیم حنفی۔ بھارت سے آئے ہوئے نقاد اور ادیب شمیم حنفی کے بقول اردو زبان جن اقدار کی نشاندہی کرتی ہے، وہ تہذیب اور شعور سے وابستہ ہیں اور گو کہ چار دنوں میں زبان سے وابستہ چیزوں کا احاطہ مشکل تھا مگر اردو زبان سے محبت کرنے والوں کا اجتماع دیکھ کر خوشی ہوئی۔
پاکستان کی معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے۔ اردو کانفرنس کی چہل پہل دیکھ کر اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا تھا کہ اردو کے دلدادہ عہد حاضر میں بھی اس زبان کو ہمعصر رکھنے پر گامزن ہیں۔
اس کانفرنس کے مختلف اجلاسوں میں کئی نامور ہستیوں کو سپاس پیش کیا گیا، جن میں فرمان فتحپوری، محمد علی صدیقی، محمود واجد، سراج الحق میمن اور داود رہبر بھی شامل تھے لیکن پروگرام کا جو حصہ سب پر بازی لے گیا، وہ تھا معروف ادیب مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ بتائی گئی ایک شام۔
اس کانفرنس کے دوسرے دن کا آغاز معاصر شعری رجحانات پر ہونے والے اجلاس سے ہوا، جس کی صدارت ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے کی۔ اپنے خطاب میں امریکا سے آئے ہوئے اس شاعر اور دانشور نے کہا کہ عہد ساز شاعری عصری رجحانات سے ہی جنم لیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نسائی شاعری کراچی شہر کی پیداوار ہے اور اب بھارتی شاعری میں بھی اس کے اثرات پائے جانے لگے ہیں۔
اس کانفرنس کے دوران ناول نگار عبداللہ حسین کے ساتھ منائی جانے والی ایک شام میں ناول نگار محمد حنیف نے بھی شرکت کی اور پاکستان کے اس عہد ساز ناول نگار کے فن پر گفتگو کی۔
کانفرنس کے آخری دن اردو افسانے کی صدی پر ایک تفصیلی اجلاس ہوا، جس کی صدارت ناول نگار انتظار حسین، اسد محمد خان، حسن منظر اور مسعود اشعر نے کی۔ مقررین میں اطہر فاروقی، زاہدہ حنا، ڈاکٹر آصف فرخی اور اخلاق احمد بھی شامل تھے۔ انتظار حسین خطاب کرتے ہوئے۔