1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی ایئرپورٹ پرحملہ: طالبان کے ساتھ مذاکرات مشکل تر

شکور رحیم/ اسلام آباد9 جون 2014

حکومت کی طرف سے مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن اور سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے خاتمے کا اعلان رسمی طور پر تو نہیں ہوا لیکن عملی طور پر یہ مذاکرات ختم ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1CEw7
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

پاکستان کے تجارتی مرکز کراچی میں ایئرپورٹ پر گزشتہ روز ہونیوالے دہشتگرانہ حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے قبول کیے جانے کے بعد حکومت اور طالبان کے درمیان مزاکرات اور ملکی سکیورٹی کی صورتحال پر کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ پے در پے دہشتگردانہ حملوں میں افغان سرحد سے باجوڑ میں کارروائیوں، فتح جنگ میں گزشتہ ہفتے ہونے والے خودکش حملے اور کراچی میں ایئرپورٹ پر یلغار سے ثابت ہو گیا ہے کہ طالبان پوری شدت کے ساتھ عسکری اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

طالبان اور حکومتی نمائندوں کے درمیان مزاکرات کا سلسلہ چھبیس مارچ سے منقطع ہے۔ 26 مارچ کو اورکزئی ایجنسی میں حکومتی ٹیم اور طالبان کی مجلس شوریٰ کے درمیان براہ راست پہلی اور آخری ملاقات ہوئی تھی۔ ان مزاکرات کے بعد دونوں جانب سے ایک دوسرے پر فائر بندی کی خلاف ورزی کے الزامات بھی لگائے گئے۔

Pakistan Gespräche Regierung Taliban 06.02.2014
مزاکرات کا سلسلہ منقطع ہےتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

حکومت کی طرف سے مزاکراتی ٹیم کے ایک رکن اور سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ مزاکرات کے خاتمے کا اعلان رسمی طور پر تو نہیں ہوا لیکن عملی طور پر یہ مزاکرات ختم ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حملوں کے بعد یہ اور بھی مشکل ہو گیا ہے کہ بامعنی مزاکرات کے ذریعے عمل کا قیام ممکن بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ،‘‘ مزاکرات جب نہیں ہو رہے، فائر بندی بھی ختم ہو گئی پھر طالبان کے حملے بھی شروع ہو گئے۔ فوج نے کئی مرتبہ جوابی کارروائی بھی کی تو پھر یہ توقع تو ہم نہیں کر سکتے کہ دہشت گردانہ حملے رک جائیں گے کیونکہ مزاکرات ہو رہے ہیں۔ دیکھیں مزاکرات جب تک ہوتے رہے حملوں میں نمایاں کمی ہو گئی تھی۔''

رحیم اللہ یوسفزئی کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان نے اپنی کارروائی مزاکرات کے دوران بھی نہیں روکی تھیں اور بقول ان کے یہ بات سجنا گروپ کے ترجمان اعظم طارق نے بھی کہی ہے کہ تحریک طالبان کے شدت پسند فرضی ناموں سے مختلف حملوں کی ذمہ داریاں قبول کرتے رہے ہیں۔

Pakistan Bus Anschlag Selbstmordanschlag Terror Karachi
طالبان نے اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیںتصویر: Reuters

دوسری جانب تجزیہ کار سلیم صافی کا کہنا ہے کہ مزاکرات کا مذاق تو بہت پہلے ہی اڑایا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کے دو گروپوں میں مقامی طور پر لڑائی ہوئی تو حکومت اور سکیورٹی اداروں نے بغلیں بجانا شروع کردی کہ طالبان میں پھوٹ پڑ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کے حملوں میں ثابت کر دیا ہے کہ یہ مقامی سطح کا اختلاف ہے اور اس کا ان کی کارروائیوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ انہوں نے کہا کہ،‘‘ نہ تو طالبان کا مسئلہ حل ہوا ہے بلکہ کچھ حوالوں سے سنگین ہو گیا ہے۔ اور نہ ہی پاکستان کی سیکورٹی کو لاحق دیگر خطرات کم ہوئے ہیں۔ اور اگر پاکستان کے ریاستی ادارے اسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں رہے اور اگر سول اور ملٹری قیادت کی کشمکش اسی طرح جاری رہی تو مجھے پاکستان میں اس سے بھی بھیانک واقعات ہوتے نظر آ رہے ہیں۔''

رحیم اللہ یوسفزئی کا بھی کہنا ہے کہ یہ بات قابل افسوس ہے کہ طالبان کی جانب سے حملوں کی توقع کے باوجود انہیں روکنے کیلئے مناسب اقدامات نہیں کیے گئے جس سے سکیورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو بھی شدید نقصانات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔