1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی پہلی لڑاکا پائلٹ عائشہ فاروق کا خصوصی انٹرویو

امتیاز احمد30 اگست 2013

عائشہ فاروق جنوبی ایشیا اور پاکستان کی وہ پہلی خاتون پائلٹ ہیں جو لڑاکا پائلٹ بننے میں کامیاب رہی ہیں۔ حالیہ برسوں میں پاکستانی افواج میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شمولیت خواتین کی بدلتے ہوئے رویے کو ظاہر کرتی ہے۔

https://p.dw.com/p/19Yx9
تصویر: Reuters

بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان ایئر فورس کو جتنی شہرت عائشہ فاروق کی وجہ سے ملی ہے، پہلے کبھی نہیں ملی۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ اپنے خصوصی انٹرویو میں جنوبی پنجاب کے شہر بہاولپور سے تعلق رکھنے والی 26 سالہ عائشہ کا پاکستان فضائیہ میں اپنی شمولیت کے بارے میں کہنا تھا، ’’مجھے بچپن ہی سے یونیفارم اچھا لگتا تھا اور بعد میں صرف ایئر فورس نے ہی مجھے یہ موقع دیا اور اب میں فرنٹ لائن پر پاکستان کی خدمت کر سکتی ہوں۔‘‘

آغاز مشکل تھا

پوری دنیا میں دفاعی افواج میں شرکت کو مردوں کی ڈومین سمجھا جاتا ہے اور پاکستان جیسے معاشرے میں خاندانی دباؤ بھی نوجوان خواتین کو مسلح افواج میں شمولیت سے روکتا ہے۔ ایسے میں عائشہ فاروق کے لیے بھی آغاز آسان نہیں تھا۔ ابتدا میں پیش آنے والی مشکلات کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’ پہلا قدم ہر ایک کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ مجھے گھر میں بھی مختلف آراء سننے کو ملیں۔ خاتون ہونے کی وجہ سے مجھے شروع میں زیادہ محنت کرنا پڑی۔ مجھے اپنے مرد ساتھیوں کو یہ باور کرانا پڑا کہ مجھے بھی ہتھیاروں سے واقفیت ہے اور میں بھی اتنی ہی محنت کرتی ہوں، جتنی ایک اچھا پائلٹ کر سکتا ہے۔‘‘

حال ہی میں اپنے انجنینئر کزن سے شادی کرنے والی عائشہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جہاں ہر طرف مرد ہوں وہاں آغاز میں سب ہی کی نظریں آپ پر ہوتی ہیں کہ آپ میں کتنی ہمت ہے؟ لیکن مجھے کبھی بھی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ ہر سطح پر میرے ساتھیوں کی طرف سے میری حوصلہ افزائی کی گئی۔‘‘

پاکستان ایئر فورس کی تعریف کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ انہیں کبھی بھی لڑکی ہونے کی حیثیت سے کم یا زیادہ رسپانس نہیں دیا گیا بلکہ ہر فیصلہ میرٹ کی بنیاد پر ہوا۔ عائشہ فاروق تین سال کی تھیں، جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد سے ان کی اور ان کی چھوٹی بہن کی تربیت ان کی والدہ کرتی آئی ہیں۔ عائشہ کہتی ہیں انہیں شروع ہی سے معاشرے سے مقابلہ کرنے کی تربیت دی گئی۔

سخت تربیتی مراحل

عائشہ فاروق کے بقول کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ سخت تربیت کا مقابلہ نہیں کر پائیں گی۔ لیکن انہی ایک دو لوگوں کی مخالفت نے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اس فیلڈ میں ثابت قدم رہیں۔ دوسری جانب پاکستان فضائیہ کے ایئر کموڈور طارق محمود کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کسی بھی لڑاکا طیارے کی قیمت کروڑوں میں ہوتی ہے۔ اس لیے اسے کسی بھی پائلٹ کے حوالے کرنے سے پہلے پائلٹ کو سخت ترین ٹریننگ دی جاتی ہے۔ سخت تربیتی مراحل کے دوران ذہن پر نقش ہو جانے والی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے عائشہ کا کہنا تھا، ’’ فائٹر پائلٹ کی جاب ڈیسک جاب سے مختلف ہوتی ہے۔ اکثر صبح چار بجے اُٹھنا پڑتا ہے اور رات کو بارہ بجے واپس آنا پڑتا ہے۔ تربیتی مراحل تواتر سے چلتے رہتے ہیں اور اگر نائٹ فلائنگ بھی شیڈیول ہو تو ہم کمرے میں صرف ایک یا دو گھنٹوں کے لیے ہی آتے ہیں۔ فارغ وقت میں بھی ذہنی گیمز اور فزیکل ایکسرسائز ہوتی ہیں۔ مشن پلاننگ اور پڑھائی بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔‘‘

پہلی پرواز کی خوشی

عائشہ فاروق کہتی ہیں کہ ان کی زندگی یادگار واقعات سے بھرپور ہے لیکن وہ اپنی پہلی سولو فلائٹ کو ابھی تک نہیں بھول پائیں۔ جاگتے ہوئے خوابوں کو مکمل ہوتے دیکھنا واقعی ایک ناقابل فراموش واقعہ تھا۔ جذباتی انداز میں اپنے تاثرات کو بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’یہ ایک عجیب ہی احساس تھا کہ میں جہاز کو تنہا اُڑا رہی ہوں اور یہ میرے کنٹرول میں ہے۔ میں نے جہاز کو گُھماتے ہوئے خود کو دانِستہ طور پر یہ احساس دلایا کہ میں بہت بلندیوں پر ہوں۔ اس وقت میری خوشی دیدنی تھی۔‘‘

عائشہ کہتی ہیں کہ فوج میں شمولیت کے حوالے سے خواتین کی سوچ تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، ’’ مجھے روز دس بارہ کالز آتی ہیں۔ لڑکیاں مجھ سے پوچھتی ہیں کہ وہ ایئر فورس میں کس طرح اپلائی کر سکتی ہیں۔ مجھے اور بھی زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے، جب اس مقصد کے لیے لڑکیوں کے والدین کے فون آتے ہیں۔‘‘

ایئر کموڈور طارق محمود کا کہنا ہے کہ پاکستان فضائیہ خواتین کو آگے لانے کی بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ پاکستان میں خواتین کو میدان جنگ میں لڑنےکی اجازت نہیں ہے۔ پاکستان ائیر فورس میں اس وقت 316 خواتین خدمات انجام دے رہی ہیں۔