1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں سرگرم غیر سرکاری فلاحی اداروں میں تشویش

Kishwar Mustafa7 ستمبر 2012

"سیو دی چلڈرن" کے غیر ملکی اہلکاروں کو پاکستان سے نکل جانے کا حکم ملنے کے بعد کئی غیر ملکی فلاحی تنظیموں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے

https://p.dw.com/p/1658l
Pakistan Arzt Shakil Afridiتصویر: dapd

آج کل ماہرین اس بات کا اندازہ بھی لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ "سیو دی چلڈرن" کے خلاف حالیہ اقدام کے بعد ملک میں جاری فلاحی منصوبے کس طرح متاثر ہو سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایبٹ آباد آپریشن میں سی آئی اے کی مدد کرنے والے ایک پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بارے میں بعض پاکستانی حکام کا خیال ہے کہ وہ "سیو دی چلڈرن" کے ساتھ رابطے میں تھے۔

پاکستان کے این جی او سیکٹر پر گہری نظر رکھنے والےپاکستان کے پبلک ہیلتھ پریکٹیشنرڈاکٹر عرفان احمد کا کہنا ہے کہ "سیو دی چلڈرن"کے غیر ملکی اہلکاروں کو پاکستان سے نکالنے کا فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا ہے اور توقع ہے کہ حکومت اس پر جلد نظر ثانی کرے گی۔ ان کے بقول یہ بہتر ہوتا اگر اس بات کا گہرائی کے ساتھ پہلے جائزہ لے لیا جاتا کہ اس ادارے پر لگائے جانے والے الزامات درست بھی ہیں یا نہیں۔"ایک ایسے وقت میں جب پاکستان وسائل کی قلت کا شکار ہے، اچھی حکمرانی کا فقدان ہے، امن و امان کی صورتحال بھی بری ہے، ملکی سرمایہ کار دوسرے ملکوں کا رخ کر رہے ہیں، ہمیں اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے کہ یہ کہیں پاکستان کے غریب عوام کو غیر ملکی امداد سے محروم کرنے اور ملکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوئی سازش تو نہیں۔"

Hilfspakete für Erdebebnregion Pakistan World Food Program
قدرتی آفات کے متاثرین کی امداد کے لیے متعدد این جی اوز کام کر رہی ہیںتصویر: AP

ڈاکٹر عرفان جو کہ ایک بڑی غیر ملکی این جی او کے مشیر بھی ہیں، کہتے ہیں، کہ "سیو دی چلڈرن"گذشتہ دودہائیوں سے تعلم، صحت اور خوراک سمیت ملک کے بہت سے شعبوں میں غریب بچوں کے لیے قابل قدر خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ اس طرح کی تنظیمیں عام طور پروفاقی وزارت خزانہ اور دیگر ریگولیٹری اداروں کے ساتھ رجسٹرڈ ہوتی ہیں اور یہ سخت ڈسپلنری قواعد و ضوابط کے تحت کام کرتی ہیں۔ اس لیے ایسی تنظیموں کی طرف سے غیر ذمہ دارانہ رویوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ "ہو سکتا ہے کہ اس ادارے سے وابستہ کسی شخص نے انفرادی طور پر کوئی غیر ذمہ دارانہ حرکت کی ہو، ایسی کالی بھیڑیں فوج اور بیوروکریسی سمیت ہر جگہ ہو سکتی ہیں۔"

ڈاکٹرعرفان کے مطابق پاکستان کے قوانین کا ہر صورت احترام ہونا چاہیے، ملکی قانون توڑنے والے کو سخت سزا ملنی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بے قصوروں کے بھی سزا نہیں ملنی چاہیے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ امدادی کارکنوں کو خفیہ اداروں کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے اور ہمیں بھی اپنے دروازے اور کھڑکیاں مضبوط کرنی چاہیں۔

"سیو دی چلڈرن" دنیا کے ایک سو بیس ملکوں میں کام کر رہی ہے، یہ اب تک اسی لاکھ پاکستانی بچوں کو صحت اور تعلیم کی سہولتیں مہیا کر چکی ہے۔ پاکستان میں اس کے دو ہزار کے قریب پاکستانی اہلکار موجود ہیں۔

Warteschlange der Erdbebenopfer
زلزلے کے بعد بالا کوٹ کا منظرتصویر: AP

ادھر سوشل سیکٹر میں طبی خدمات سر انجام دینے والےغیر سرکاری اداروں پر نظر رکھنے والے ایک تجزیہ نگارڈاکٹرعاصم اللہ بخش نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ "سیو دی چلڈرن" کے غیر ملکی اہلکاروں کی ملک بدری کا فیصلہ بدقسمتی کی بات ہے اس سے جہاں این جی او سیکٹرپر لوگوں کا اعتماد متاثرہوگا دوسری طرف فلاحی منصوبے بھی متاثر ہوں گے۔ اس فیصلے کے بعد اچھا کام کرنے والی غیر ملکی این جی اوز پر بھی نظر رکھی جائے گی۔

ڈاکٹر عاصم کے بقول فلاحی کام کرنے والی این جی اوز کو تقریبا تمام ملکوں میں خاص عزت دی جاتی ہے، ان کے اہلکاروں کو ایسی جگہوں تک بھی رسائی حاصل ہوتی ہے جہاں عام غیر ملکی آسانی سے نہیں آ جا سکتے۔ اگر ایسی این جی او کا کوئی اہلکار اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کرتے ہوئے ٹرسٹ کو توڑتا ہے تو اس سے خرابی جنم لیتی ہے۔ ان کے بقول این جی اوز کو بھی کسی ضابطہ اخلاق کے تحت ہی کام کرنا چاہیے۔ سفید جھنڈے کا احترام سب پر واجب ہے، جو کوئی سفید جھنڈے کو مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرے گا وہ بڑے ہی ظلم کا ارتکاب کرے گا۔

سیو دی چلڈرن نے ایک ای میل کے ذریعے اپنے تمام اہلکاروں کو میڈیا سے بات کرنے سے منع کر رکھا ہے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: کشور مصطفیٰ


اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں