1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں تھری جی اور فور جی، ٹیکنالوجی کا درخشاں مستقبل

شادی خان سیف، کراچی24 اپریل 2014

حکومت پاکستان نے ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر کے عوض موبائل انٹرنیٹ کی تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کے لائسنس فروخت کر دیے ہیں۔ اس پیشرفت کو پاکستان میں ٹیکنالوجی کے روشن مستقبل کی نوید قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Bnrc
تصویر: imago/Jochen Tack

ایک سو پچاس سے زائد ممالک میں استعمال ہونے والی تھری جی اور فور جی موبائل ٹیلی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی اب بہت جلد پاکستانی صارفین کو بھی دستیاب ہو گی۔ پاکستانی حکومت نے بدھ 24 اپریل کو ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر کے عوض تھری جی اور فور جی کے مجموعی طور پر پانچ لائسنس فروخت کیے۔ ان میں دو دس میگا ہرٹز کے تھری جی، دو پانچ میگا ہرٹز کے تھری جی اور ایک فور جی لائسنس شامل ہیں جبکہ ایک فور جی لائسنس اب بھی نیلامی کے لیے دستیاب ہے۔

یہ ٹیکنالوجی کافی دیر سے پاکستان میں آئی ہے جبکہ پڑوسی ممالک بنگلہ دیش، بھارت حتیٰ کہ افغانستان میں بھی تھری جی ٹیکنالوجی کافی عرصے سے دستیاب ہے
یہ ٹیکنالوجی کافی دیر سے پاکستان میں آئی ہے جبکہ پڑوسی ممالک بنگلہ دیش، بھارت حتیٰ کہ افغانستان میں بھی تھری جی ٹیکنالوجی کافی عرصے سے دستیاب ہےتصویر: imago/avanti

پاکستان کے سب سے بڑے نجی بینک میں صارفین کے مالی معاملات کے شعبے کے سربراہ فائق صادق ٹیکنالوجی میں اس جہت کو درخشاں مستقبل کی نوید سمجھتے ہیں: ''آپ ایجوکیشن کے لیے اسے استعمال کرسکتے ہیں، ہیلتھ کے لیے کرسکتے ہیں، رپورٹس کی تیاری وغیرہ میں، دور دراز علاقوں تک رسائی ممکن ہوسکے گی، بینکوں کو بہت فائدہ ہوگا اور عالمی سطح پر آپ بڑے بڑے اداروں کے ساتھ مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔‘‘

کچھ حلقوں کے بقول یہ ٹیکنالوجی کافی دیر سے پاکستان میں آئی ہے جبکہ پڑوسی ممالک بنگلہ دیش، بھارت حتیٰ کہ افغانستان میں بھی تھری جی ٹیکنالوجی کافی عرصے سے دستیاب ہے۔

لائسنس حاصل کرنے والی نجی کمپنیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک بھر میں تھری جی سروسز فراہم کرنے کے لیے ان کا موجودہ مواصلاتی ڈھانچہ کافی ہے اور وہ چند ہی ہفتوں میں صارفین کو یہ سروس فراہم کرسکتے ہیں۔ جس کے بعد انٹرنیٹ صارفین کو گھر بیٹھے اور موبائل فونز پر زیادہ بہتر رفتار کی حامل سروس مل سکے گی۔ تیز تر انٹرنیٹ سروس یعنی فور جی کے حوالے سے البتہ کچھ انتظار ناگزیر بتایا جارہا ہے۔