1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: عام انتخابات میں اپوزیشن کی فتح

19 فروری 2008

پاکستان کے پارلیمانی انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کو فتح حاصل ہوئی ہے۔ ابتدائی عبوری نتائج کے مطابق اپوزیشن کو 272 رکنی پارلیمان میں کم از کم 139 نشستوں کے ساتھ کامل اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ اب تک کی حکمران جماعن پاکستان مسلم لیگ(ق) نے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ اِس جماعت کے قائد چوہدری شجاعت حسین نے ایک خبر رساں ادارے سے باتیں کرتے ہوئے کہا:” ہم اِن نتائج کو کھلے دِل سے قبول کرتے ہیں اور اپوزیشن بینچوں پر بیٹھیں گے۔“

https://p.dw.com/p/DYEq
تصویر: picture-alliance/ dpa

229 پولنگ اسٹیشنوں سے موصول ہونے والے غیر سرکاری نتائج کے مطابق مقتول اپوزیشن رہنما بے نظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کو 33,1 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ اب تک دوسری پوزیشن سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ہے، جس نے 27,5 فیصد ووٹ جیتے ہیں۔ مشرف کی حمایت یافتہ جماعت پاکستان مسلم لیگ(ق) 14,4 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے تیسرے نمبر پر رہی۔

الیکشن کمیشن نے 124 انتخابی حلقوں سے موصولہ ابتدائی نتائج بتاتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) تقریباً 30 فیصد ووٹوں کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی (26,6 فیصد)پر سبقت حاصل کئے ہوئے ہے۔

مبصرین کے خیال میں یہ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں دیگر چھوٹے گروپوں کے ساتھ مل کر آئندہ پارلیمان میں دو تہائی اکثریت حاصل کر سکتی ہیں۔ ایسا ہو گیا تو اِس سے مشرف کو صدر سے عہدے سے ہٹانے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر نواز شریف بار بار اِس امر پر زور دیتے رہے ہیں۔ اُن کی پارٹی کے ترجمان صدیق الفاروق نے منگل کو بار بار زور دے کر کہا کہ مشرف کو جانا ہو گا۔ اُن کے خیال میں دہشت گردی کے مسئلے کی 70 فیصد تک ذمہ داری مشرف پر عاید ہوتی ہے۔ نواز شریف نے شمال مغربی پاکستان میں سرگرمِ عمل انتہا پسدوں کے ساتھ مکالمت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

سرکاری بیانات کے مطابق انتخابات کے روز ملک بھر میں حملوں اور دیگر پر تشدد واقعات میں کم از کم 24 افراد ہلاک ہو گئے۔ کئی ملین رائے دہندگان حملوں کے خوف سے یا پھر سیاسی عمل سے بیزاری کے باعث ووٹ ڈالنے نہیں گئے۔ انتخابات میں رائے دہندگان کی شرکت 30 تا 40 فیصد بتائی جا رہی ہے۔

ان عام انتخابات کے نتائج کافی غیرمتوقع رہے ہیں۔ پاکستانی صدر مشرف کی ساتھی اور سابقہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کے کئی مرکزی رہنماؤں کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ اِس جماعت نے اپنی یہ شکست تسلیم بھی کر لی ہے۔ پہلی پوزیشن پاکستان پیپلز پارٹی کی ہے، دوسری پوزیشن نواز شریف کی مسلم لیگ کی ہے۔

انتخابی نتائج منظرِ عام پر آتے ہی بہت بڑے پیمانے پر سیاسی جوڑ توڑ کا آغاز ہو چکا ہے۔ نئی حکومت کے خدو خال کیا ہوں گے، کون سی جماعت کسی جماعت کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گی۔ نئی حکومت کی پالیسیاں کیا ہوں گی اور وہ دہشت گردی کے خلاف اُس جنگ میں کیا مَوقِف اختیار کرے گی، جو اب تک پاکستان میں صدر مشرف کی سرکردگی میں لڑی جا رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ بہت نمایاں انداز میں آئندہ حکومت کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

پنجاب سے مسلم لیگ نون نے قومی اسمبلی کی بھی کم از کم 67 نشستیں جیتی ہیں اور صوبائی اسمبلی میں تو یہ جماعت کم از کم 101 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی قوت کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی ہے۔ جماعت کے قائد میاں نواز شریف کا لائحہ عمل کیا ہو گا، یہ بتاتے ہیں، تنویر شہزاد، لاہور سے۔

صوبہء سندھ میں انتخابی نتائج کیا رہے، یہ جاننے کے لئے اب ہماری اگلی منزل ہے کراچی۔ سندھ میں اور اُس کے صوبائی دارالحکومت کراچی میں حسبِ توقع پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی مووومنٹ کامیاب رہی ہیں۔ تفصیلات کے ساتھ، رفعت سعید۔

اُدھر صوبہء سرحد میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلسِ عمل کا پانچ سالہ دَورِ اقتدار اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ مذہبی جماعتوں کے لئے بہت کم نشستوں کی ایک وجہ یقیناً یہ ہے کہ اِن میں سے زیادہ تر جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن دوسری طرف یہ بات بھی یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ عوام گذشتہ پانچ سالہ دَور کی پالیسیوں سے بیزار ہو گئے تھے۔ صوبہء سرحد کی انتخابی صورتِ حال ہمیں بتائی، مقامی صحافی طارِق آفاق نے۔

ڈوئچے ویلے میں ہمارے ساتھی تھوماس بیرتھ لائن الیکشن ہی کے سلسلے میں آج کل پاکستان میں ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اِن انتخابات میں عوام نے دراصل صدر مشرف کی پالیسیوں کو مسترد کر دیا ہے۔ دارالحکومت اسلام آباد کے باسیوں کے تاثرات پر مبنی نو ٹو ڈکٹیٹر کے نام سے اُنہوں نے ایک رپورٹ ارسال کی ہے۔ تو آئیے اب ہم یہ رپورٹ سنتے ہیں، جسے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے، افضال حسین نے۔