1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی قبائلی علاقوں کے صحافیوں کے لیے جرمن اعزاز

2 نومبر 2012

جرمن تنظیم فریڈرِش ایبرٹ اشٹِفٹُنگ FES نے پاکستانی کے شمال مغربی قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے ولے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ٹرائبل یونین آف جرنلسٹس کو سال 2012 کا انسانی حقوق کا ايوارڈ دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/16bCW
تصویر: DW

بدھ کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں منعقدہ ايک تقريب ميں یہ انعام ٹرائبل یونین آف جرنلسٹس کے صدر صفدر حیات داور کے حوالے کيا گيا۔ تقریب کے آغاز میں FES کے سربراہ ڈاکٹر پیٹر اشٹُرک (Dr Peter Struck) نے مشکل حالات اور سلامتی کی غير تسلی بخش صورتحال کے باوجود اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں انجام دینے والے پاکستانی قبائلی علاقوں کے صحافیوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ متعدد جرمن اور یورپی تنظیمیں پاکستانی صحافیوں کی تربیت اور دیگر حوالوں سے ان کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں۔

اس موقع پر پاکستان میں صحافیوں کو درپیش مسائل کے تناظر میں ایک مختصر مذاکرے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ تقریباً ایک گھنٹے دورانیے کے اس مذاکرے میں پاکستان کے معروف صحافی رحیم اللہ یوسف زئی اورجرمن زبان کے سوئس ٹیلی وژن ادارے شوائتسر فیرن زیہن کے افغانستان میں خدمات انجام دینے والے صحافی اُلرِش ٹِلگنر (Ulrich Tilgner) نے حصہ لیا۔ اس مذاکرے کی نظامت بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز سے وابستہ گیما پوئرسگن (Gemma Pörzgen) نے کی۔

Friedrich Ebert Stiftung Menschenrechtspreis 2012
تقریب کے دوران مختصر مذاکرے کا منظرتصویر: DW

رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ قبائلی علاقوں ميں کام کرنے والے پاکستانی صحافیوں کو ایک طرف تو سخت ترین حالات میں کام کرنا پڑتا ہے اور دوسری طرف انہيں ملنے والے معاوضے بھی کافی کم ہوتے ہيں۔ انہوں نے مزيد بتایا کہ قبائلی علاقوں میں صحافیوں کو پاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت متفرق قانون FCR کی وجہ سے مزید پریشانیوں کا سامنا ہے۔ یوسف زئی کے بقول امریکا میں گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں اور افغانستان ميں امریکی فوجی مداخلت کے آغاز سے اب تک پاکستان میں چالیس سے زائد صحافی ہلاک ہوچکے ہیں، جن کی اکثريت کا تعلق قبائلی علاقوں اور صوبے خیبر پختونخوا سے تھا۔ تاہم رحیم اللہ یوسف زئی نے یہ بھی تسليم کيا کہ پاکستان میں میڈیا تیزی سے پھل پھول رہا ہے اور اس کا فائدہ صحافیوں کو پہنچ رہا ہے تاہم اب بھی صحافی بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔ یوسف زئی نے بتایا کہ قبائلی علاقوں میں مختلف ٹی وی چینلز کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کے کیمرے تو ضرور انشورنس کے حامل ہوتے ہیں ليکن کیمرہ مین نہیں۔

اس مذاکرے میں پاکستانی قبائلی علاقوں اور افغانستان میں خدمات انجام دینے والے اُلرِش ٹِلگنر نے کہا کہ صحافیوں کے لیے تربیت، مراعات اور مناسب قانون سازی کے ذریعے صحافتی آزادی کو یقینی بنائے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔

تقریب میں شریک جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں بنڈس ٹاگ کے پارلیمانی گروپ برائے جنوبی ایشیا کے سربراہ ژوہانیس فلُوگ (Johannes Pflug) نے اپنے خطاب میں پاکستان میں صحافتی تنوع اور آزادی صحافت کو ان کے تاریخی پس منظر میں بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں فوجی بغاوتوں اور ان کے بعد آمریت کے لمبے ادوار نے معاشرے کے دوسرے شعبوں کے ساتھ ساتھ صحافت کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔
مذاکرے کے بعد صفدر حیات داور نے قبائلی علاقوں کے صحافیوں کو دیا گیا یہ ایوارڈ وصول کیا۔ ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد انہوں نے بھی اس عزم کا اظہار کیا کہ تمام تر مشکل حالات کے باوجود قبائلی علاقوں کے صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں پوری جاں فشانی سے ادا کرتے رہیں گے۔ ’’پاکستان کی دیگر صحافتی تنظیمیں قبائلی علاقوں کے صحافیوں پر کوئی توجہ ہی نہیں دیتیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وزیرستان میں کام کرنے والا صحافی غیر اہم ہے، مگر اس ایوارڈ کے بعد انہیں قبائلی علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں اور ان کی خدمات کو تسلیم کرنا پڑے گا۔‘‘

Picture (IMG_5133): Caption: FES human rights award 2012 for Pakistani journalists. Head of FES Dr. Peter Struck is delivering opening remarks and welcoming guest at FES office in Berlin. Picture taken by Atif Tauqeer, DW-Urdu, Oktober 2012
FES کے سربراہ ڈاکٹر پیٹر اشٹرک حاضرین سے خطاب کے دورانتصویر: DW

اعزاز وصول کرنے کے بعد ڈوئچے ویلے شعبہ اردو سے خصوصی بات چیت میں داور نے دوبارہ کہا کہ پاکستانی صحافیوں کی تنظیمیں قبائلی علاقوں کے صحافیوں کو ان کا جائز مقام دینے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں کے صحافیوں کو ایک جانب تو طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں سے خطرات لاحق رہتے ہیں اور دوسری جانب حکومتی ایجنسیاں بھی کبھی کبھی صحافیوں کو ’ناپسندیدہ‘ رپورٹیں چھاپنے پر سزا دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں صحافیوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کا آغاز قبائلی علاقوں سے ہی ہوا تھا، تاہم قبائلی علاقوں کے صحافیوں کے قتل کے متعدد واقعات کو دیگر صحافتی تنظیموں نے کوئی زیادہ اہمیت نہ دی اور یہی واقعات پھر دیگر علاقوں میں بھی پھیلتے چلے گئے۔

رحیم اللہ یوسف زئی نے بھی ڈوئچے ویلے اردو کے ساتھ اپنی خصوصی بات چیت میں کہا کہ ملالہ یوسف زئی کے معاملے میں جس طرح پاکستانی میڈیا نے عسکریت پسندوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، اگر آئندہ بھی اسی یکجہتی سے دیگر خطرات کا مل کر مقابلہ کیا جائے، تو نتائج انتہائی بہتر اور مختلف ہوں گے۔

واضح رہے کہ چند ہفتے قبل سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے تعلق رکھنے والی ایک کم عمر لڑکی ملالہ یوسف زئی کو طالبان نے گولی مار کر شدید زخمی کر دیا تھا۔ طالبان کا کہنا تھا کہ ملالہ یوسف زئی کو طالبان کی مخالفت کرنے اور اس مخالفت کا اظہار کرنے پر نشانہ بنایا گیا، تاہم پاکستان میں اس حملے کے بعد شدید ردعمل سامنے آیا۔ رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان کی مقبولیت جو پہلے ہی انتہائی کم تھی، اس واقعے سے اسے اور بھی شدید دھچکا پہنچا ہے۔

اس تقریب میں خصوصی طور پر پاکستانی موسیقی کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ ستار نواز استاد اشرف شریف خان نے معروف پشتو گیت کی دھن بجا کر محفل کو چار چاند لگا دیے۔

رپورٹ: عاطف توقیر، برلن

ادارت: مقبول ملک