1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نفرت اور تشدد، پاکستانی احمدی اقلیت کی چین کو ہجرت

عاطف توقیر19 جون 2014

پاکستان میں تفریق اور تشدد سے تنگ آ کر احمدی اقلیت سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد اور خاندان چین ہجرت کر رہے ہیں، تاہم وہاں بھی ان کے لیے مشکلات کچھ کم نہیں۔

https://p.dw.com/p/1CLnW
تصویر: AMJ

چین میں پناہ گزین، پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور سے تعلق رکھنے والے 37 سالہ سعید اپنی نقل مکانی کے حوالے سے کہتے ہیں، ’وہاں (پاکستان میں) ہر روز مجھے گولیوں کی آوازیں سننے کو ملتی تھیں۔‘

’’ہم ہر روز اپنی سلامتی کی دعا مانگتے تھے، کیوں کہ ہمیں لگتا تھا کہ ہمارے ساتھ کسی بھی لمحے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سعید حالیہ برسوں میں پاکستان سے چین منتقل ہونے والے سینکڑوں افراد میں سے ایک ہیں۔ عموماﹰ جنگ زدہ ملکوں مثلاﹰ صومالیہ، شام یا عراق سے ہی اقلتیوں کی نقل مکانی دیکھنے میں آتی ہیں، تاہم پاکستانی اقلیتوں کا بھی اس سے کچھ مختلف صورتحال کا سامنا نہیں۔

چین میں داخل ہونے والے مہاجرین کو حکومت برداشت تو کرتی ہے، تاہم ان کی کوئی خاص مدد نہیں کی جاتی۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بیجنگ حکومت پر مسلسل تنقید کرتی آئی ہیں کہ وہ شمالی کوریا اور میانمار سے ملک میں داخل ہونے والے ہزاروں افراد کو ملک بدر کر چکی ہے۔

پاکستانی میں احمدی اقلیت معاشرتی تفاوتوں اور تشدد کا سب سے زیادہ شکار ہے
تصویر: AP

اقوام متحدہ کے مطابق چین میں سیاسی پناہ کی درخواست دینے والے پانچ سو رجسٹرڈ افراد میں سے 35 کا تعلق پاکستانی احمدی اقلیت سے ہے۔

پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ غیر مساویانہ سلوک اور ان کے خلاف تشدد کے اعتبار سے یہ اقلیت سب سے زیادہ متاثرہ ہے۔

پاکستانی دستور کے مطابق احمدیوں کو خود کو مسلمان کہلانے اور حج کے لیے جانے پر پابندی عائد ہے۔

سن 2010ء میں مسلح افراد نے پاکستانی شہر لاہور میں احمدیوں کی ایک عبادت گاہ پر حملہ کر کے 82 افراد کو ہلاک کر دیا تھا، جب کہ اس ہسپتال پر بھی حملہ کیا گیا تھا، جہاں اس واقعے کے زخمیوں کو لے جایا گیا تھا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق احمدیوں کی عبادت گاہوں اور قبرستانوں پر کم شدت کے حملے پاکستان میں معمول کی بات ہیں۔

چار برس قبل چین پہنچنے والے سعید کے مطابق، ’’کم از کم سلامتی کی صورتحال کے اعتبار سے چین بہتر ہے۔ یہاں پاکستان کے مقابلے میں دہشت گردی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان میں اقلتیوں سے تعلق رکھنے والوں کا قتل اور ان کے خلاف مقدمے روز کی بات ہیں۔‘

سعید نے بتایا کہ سن 2010ء میں لاہور میں احمدی عبادت گاہ پر ہونے والے حملے میں ان کے دو کزن ہلاک ہو گئے تھے۔

چین میں موجود احمدیوں کا کہنا ہے کہ وہ چینی ویزے کے حصول کے لیے ایجنٹس کو تقریباﹰ تین ہزار ڈالر ادا کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ چین میں کسی شخص کو اس وقت تک ’مہاجر‘ ہونے کے حقوق نہیں ملتے، جب تک اسے اقوام متحدہ کی جانب سے یہ درجہ نہ دیا جائے۔ اس کے لیے ایسے ہر فرد کو 18 ماہ تک مختلف ٹیسٹس کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ درجہ حاصل ہونے کے باوجود چین ایسے افراد کو معاشرتی دھارے میں شامل نہیں کرتا اور انہیں کام کی اجازت نہیں ہوتی۔ ایسی صورتحال میں یہ افراد برسوں کسی تیسرے ملک کی جانب سے اپنا لیے جانے کے منتظر رہتے ہیں۔

یہ بات اہم ہے کہ چین نے سن 1982ء میں اقوام متحدہ کے عالمی معاہدہ برائے مہاجرین پر دستخط کیے تھے، تاہم اب تک اس کے ہاں کوئی ایسا نظام نہیں ہے، جس سے سیاسی پناہ کے لیے درخواست دینے والے افراد کے دعووں کو پرکھا جا سکے۔ چینی حکومت یہ ذمہ داری اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین UNHCRکے سپرد کرتی ہے۔

UNHCR کے پروٹوکول افسر برائے چین فرانسِس تَوہ کے مطابق، ’’کبھی کبھی میں حیران ہوتا ہوں کہ یہ لوگ کس طرح زندہ رہتے ہیں، کیوں کہ ہم انہیں جو معاونت فراہم کرتے ہیں، وہ نہایت کم ہے۔‘‘