1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مس ورلڈ‘ کے مقابلے میں ’مس مسلم ورلڈ‘

عاطف بلوچ16 ستمبر 2013

انڈوینیشا میں عالمی مقابلہ حسن کے انعقاد پر اسلام پسندوں کی مخالفت نے عالمی میڈیا میں خاصی توجہ حاصل کی ہے لیکن وہاں ’مس مسلم ورلڈ‘ کے مقابلوں کے انعقاد پر میڈیا کی توجہ نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/19i7Z
تصویر: picture-alliance/dpa

انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں اگرچہ گزشتہ تین برس سے ’مس مسلم ورلڈ‘ مقابلے کا انعقاد کیا جا رہا ہے تاہم سال 2013 کے مقابلے کے لیے پہلی مرتبہ غیر ملکی خواتین بھی شریک ہوئیں ہیں۔ گزشتہ منگل کو شروع ہونے والے چار روزہ سیمی فائنل مقابلے میں بیس خواتین نے فائنل کے لیے کوالیفائی کر لیا ہے۔ فائنل مقابلہ اٹھارہ ستمبر کو منعقد کیا جائے گا۔ اس حتمی مرحلے کے لیے نائجیریا سے دو جب کہ ملائیشیا، برونائی، ایران، بنگلہ دیش اور امریکا سے ایک ایک خاتون منتخب کی گئی ہے۔

Miss Muslim World 2013
سیمی فائنل مقابلوں میں شرکاء خواتین نے تھکا دینے والے مذہبی اور سماجی کاموں میں حصہ لیاتصویر: picture-alliance/dpa

مس مسلم ورلڈ کے فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی خواتین میں زیادہ تر یونیورسٹی کی طالبات ہیں لیکن ان میں ایک آرکیٹیکٹ، ایک ڈاکٹر، ایک یونیورسٹی لیکچرر اور تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے والی ایک متحرک کارکن بھی شامل ہیں۔

’ورلڈ مسلم فاؤنڈیشن‘ World Muslimah Foundation کی بانی ایکا شانتے کا کہنا ہے کہ کئی برسوں تک کسی نے بھی ’مس ورلڈ‘ اور ’مس یونیورس‘ جیسے ایونٹس کا مقابلہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مس مسلم ورلڈ مقابلے کی منتظم ’ورلڈ مسلم فاونڈیشن‘ کی سربراہ نے مزید کہا کہ اب لوگ یہ احساس کر سکتے ہیں کہ ’مس مسلم ورلڈ‘ عالمی مقابلہ حسن کا ایک اسلامی متبادل ہو سکتا ہے۔

شرکاء کا چناؤ

اس مقابلے میں منتخب ہونے کے لیے تین عمومی شرائط تھیں، خاتون نیک اور سمارٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اسٹائلش بھی ہو۔ اس مقابلے میں شریک ہونے کی خواہمشند خواتین نے درخواستیں آن لائن جمع کرائیں۔ اس درخواست کے ساتھ امیدوار نے اپنی قابلیت ظاہر کرنے کے لیے ایک مضمون بھی ارسال کیا اور ساتھ ہی ایک ایسی ویڈیو بھی بھیجی، جس سے ان کے تلاوت قرآن کی مہارت بھی ظاہر ہوتی ہے۔

اس مقابلے میں شریک ہونے کی خواہمشند خواتین کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ روزمرہ زندگی میں حجاب پہنتی ہوں یا پھر ’اسلامی طریقے‘ کے مطابق سر کو ڈھانپتی ہوں۔

ابتدائی مرحلے میں ججوں نے 100 درخواست دہندگان کو سیمی فائنل کے لیے منتخب کیا۔ گزشتہ منگل کو شروع ہونے والے چار روزہ سیمی فائنل مقابلے کے بعد فائنل کے لیے بیس خواتین نے کوالیفائی کیا۔

سیمی فائنل مقابلہ

مغربی جاوا میں منعقد ہوئے سیمی فائنل مقابلوں میں شرکاء خواتین نے تھکا دینے والے مذہبی اور سماجی کاموں میں حصہ لیا۔ یہ خواتین مذہبی عبادات کے لیے علی الصبح تین بجے اٹھتی تھیں۔ اس دوران انہوں نے یتیم بچوں کے ساتھ بھی وقت گزارا۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اس مقابلے کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ ان شرکاء نے سیمی فائنل مقابلے میں اسلامی مالیاتی نظام، بچوں کی ترییت اور قرآن کو سمجھنے کے حوالے سے مختلف کورسوں میں بھی حصہ لیا۔

Miss Muslim World 2013
ابتدائی مرحلے میں ججوں نے 100 درخواست دہندگان کو سیمی فائنل کے لیے منتخب کیاتصویر: picture-alliance/dpa

فائنل تک پہنچنے والی نائجیریا کی اکیس سالہ عائشہ نے کہا، ’’یہ ایک اچھوتا پروگرام ہے اور میں بہت زیادہ خوش ہوں۔‘‘ مس مسلم ورلڈ مقابلے پر تبصرہ کرتے ہوئے فارمیسی کی طالبہ عائشہ نے مزید کہا، ’’مس ورلڈ کے مقابلے میں یہ ایک بالکل مختلف ایونٹ ہے کیونکہ اُس میں ظاہری حسن اہم نہیں ہے بلکہ مس مسلم ورلڈ میں اندرونی حسن ہی معیار ہے۔‘‘

مس مسلم ورلڈ کا ٹائٹل جینے والی خاتون کو دو ہزار دو سو ڈالر کی نقد رقم انعام میں دی جائے گی جب کہ اسے ترکی اور بھارت کی مفت سیر بھی کرائی جائے گی۔ مس مسلم ورلڈ کا تاج پہننے والی مسلم ممالک میں پسماندہ خواتین کی خصوصی سفیر بھی نامزد کی جائے گی۔

آئندہ مس مسلم ورلڈ کا مقابلہ برونائی میں منعقد کیا جائے گا جب کہ تین مختلف ممالک نے مستقبل میں ان مقابلوں کے انعقاد کے لیے درخواستیں جمع کرا دی ہیں۔

دریں اثناء انڈونیشیا کے حکام نے کہا ہے کہ بین الاقوامی مس ورلڈ کا مقابلہ اٹھائیس ستمبر کو طے شدہ پروگرام کے تحت ہی منعقد کیا جائے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ اسلام پسندوں نے مطالبہ کیا ہے کہ مس ورلڈ کا مقابلہ انڈونیشیا میں نہ کرایا جائے کیونکہ یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔