فوکوشیما حادثہ انسانی غلطی تھا، حتمی رپورٹ
5 جولائی 2012اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوکوشیما پاور پلانٹ کا حادثہ حکومت، نگران ادارے اور اس پاور پلانٹ کو چلانے والی کمپنی ٹیپکو کے درمیان تصادم اور ان اداروں کی طرف سے مناسب اقدامات کے فقدان کے باعث پیش آیا، ’’انہوں نے قوم کے جوہری حادثے سے محفوظ رکھے جانے کے حق سے پہلو تہی کی۔ اس لیے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ حادثہ واضح طور پر انسانی غفلت کی وجہ سے ہوا۔‘‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ’’ہمارا یقین ہے کہ اس حادثے کی بنیادی وجوہات میں کسی فرد واحد کی اہلیت کی بجائے انتظام اور نگرانی کے نظام تھے، جو غلط فیصلوں اور اقدامات کا باعث بنے۔‘‘
جاپان میں ہونے والا یہ جوہری حادثہ دنیا بھر میں ہونے والے اس نوعیت کے سب سے بڑے حادثوں میں سے ایک تھا۔ حالیہ رپورٹ اس حادثے کے حوالے سے تیسری تحقیقاتی رپورٹ ہے۔ قبل ازیں فوکوشیما پاور پلانٹ چلانے والی ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی TEPCO کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں اس کمپنی پر کوئی ذمہ داری عائد کیے بغیر اس کی تمام تر ذمہ داری شدید زلزلے اور سونامی پر عائد کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ کمپنی کو اس قدرتی آفت کی اس حد تک شدت کا اندازہ نہیں تھا۔
تاہم ماہرین اور صحافیوں پر مشمل ایک آزاد گروپ کی طرف سے رواں برس فروری میں جاری کی جانے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ TEPCO اس حادثے سے بچنے کے لیے کافی کچھ کر سکتی تھی اور اسے کرنا چاہیے تھا۔
آج جمعرات پانچ جولائی کو جاری کی جانے والی رپورٹ میں سونامی کی بجائے ریکٹر اسکیل پر 9 کی شدت سے آنے والے زلزلے کے فوکو شیما کے ری ایکٹروں پر اثرات کے حوالے سے مزید تحقیقات پر زور دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ’’حادثے کی براہ راست وجوہات کے حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ یہ بات ابھی یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ پلانٹ کے حفاظتی نظام کو زلزلے سے کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔‘‘
سائنسدانوں اور جوہری تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے حکومت اور TEPCO کے اس مؤقف پر سوالات اٹھائے ہیں کہ یہ حادثہ سونامی کے باعث پانی بھر جانے سے ری ایکٹروں کو ٹھنڈا رکھنے والے نظام کے متاثر ہو جانے کے باعث پیش آیا۔ ان کے خیال میں سونامی کی بجائے دراصل زلزلہ ہی ان ری ایکٹرز کو متاثر کرنے کا باعث بنا۔ ان ماہرین کے مطابق اس جوہری پاور پلانٹ کو دراصل شدید زلزلے سے بچانے کے لیے مناسب حفاظتی اقدامات کیے ہی نہیں گئے تھے۔
aba/aa (AFP)