1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی اعزاز حاصل کرنے والا پاکستانی، پہچان کے لیے سوشل میڈیا کا محتاج

عنبرین فاطمہ9 جولائی 2014

’’مسل مینیا مسٹر یونیورس‘‘ میں پاکستان باڈی بلڈر سلمان احمد نے دوسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ اس مقابلے میں تمغہ حاصل کرنے والا وہ پہلا پاکستانی ہے تاہم ملک کا نام روشن کرنے والا یہ تن ساز ملک میں بے توجہی پر دلبرادشتہ ہے۔

https://p.dw.com/p/1CYcs
تصویر: Privat

گزشتہ ماہ امریکی شہر میامی میں نیچرل باڈی بلڈنگ کا عالمی مقابلہ ’’مسل مینیا مسٹر یونیورس‘‘ منعقد ہوا، جس میں پاکستان سمیت دنیا کے 300 سے زائد تن سازں نے شرکت کی۔ لاہور کی سنٹرل پنجاب یونیورسٹی میں ایم بی اے کے طالب علم سلمان احمد نے اس مقابلے میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔

پانچ برس قبل تن سازی کی ابتداء کرنے والے سلمان احمد نے ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے اس کیٹیگری میں تمغہ حاصل کیا ’’یہ مقابلہ چار دن تک جاری رہا تھا اور میں نے 185 lb یعنیٰ 80 kg کی کیٹیگری میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی۔ میں پاکستان کا پہلا کھلاڑی ہوں جو وہاں یہ پوزیشن لے کر آیا ہے۔ امریکا جا کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں جب آپ کی حکومت ہی آپ کو سپورٹ نہیں کرتی تو بہت زیادہ مشکلات سہنی پڑتی ہیں۔ امیگریشن سے لے کر مقابلے تک بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘‘۔

Salman Ahmed Bodybuilder aus Pakistan
سلمان دائیں سے دوسرے نمبر پرتصویر: Privat

سلمان کہتے ہیں کہ جب وہ پاکستان پہنچے تو انہیں یہ جان کر شدید صدمہ ہوا کہ ملک میں کسی کو اس کی خبر ہی نہیں تھی کہ ملک کا ایک نوجوان کھلاڑی بیرون ملک بڑی کامیابی حاصل کر کے واپس آیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے حکومتی اداروں سے لے کر ٹیلی وژن چینلز تک متعدد لوگوں سے رابطہ کیا مگر ہر طرف سے ان کی حوصلہ شکنی ہی کی گئی۔ لہٰذا مجبوراً انہیں سوشل میڈیا کا سہارا لینا پڑا جس سے انہیں اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا موقع ملا۔ ’’حکومت کی طرف سے تو مجھے ابھی تک نہیں پوچھا گیا ہے لیکن پاکستانی یوتھ مجھے سپورٹ کر رہی ہے اور سراہ رہی ہے۔ مجھے روزآنہ ہزاروں کالز آتی ہیں۔ مجھے سوشل میڈیا کے علاوہ ہر جگہ سے پذیرائی مل رہی ہے اور میرا فیس بک اتنا زیادہ بڑھ گیا ہےکہ مجھے خود سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ سب کچھ کیسے ہو گیا۔ مجھے اس کی توقع نہیں تھی۔ اس کے بعد کافی زیادہ ٹی وی چینلز نے بھی مجھ سے رابطہ کیا۔ اب مسٹر ورلڈ کے لیے مجھے چنا گیا ہے۔ یہ مقابلہ نومبر میں لاس ویگاس میں ہوگا۔ اگر میں وہاں گیا اور جیت کر آیا تو مجھے ایک Pro card مل جائے گا جو کہ پروفیشنل باڈی بلڈنگ کارڈ ہے اور پاکستان کے کسی بھی باڈی بلڈر کے پاس نہیں ہے‘‘۔

سلمان احمد نے شکوہ کیا کہ پاکستان میں سوائے کرکٹ کے کسی بھی کھیل کو نہ تو سپورٹ دی جاتی ہے اور نہ ہی اس کے کھلاڑیوں کو پذیرائی ملتی ہے’’جب پاکستان واپس آیا تو کسی کو پتا ہی نہیں تھا کہ یہ نیچرل باڈی بلڈنگ کا دنیا کا سب سے بڑا مقابلہ ہوتا ہے۔ اسے آسٹریلیا، کینڈا، امریکا اورر یورپی ممالک سمیت دنیا کے 32 ملکوں میں براہ راست دکھایا گیا اور پاکستان میں کسی کو پتا ہی نہیں ہے کہ ان کا کھلاڑی اس لیول پر جا کر مقابلے میں حصہ لے رہا ہے اور جیت کر آرہا ہے۔ ایک ریکارڈ بنا کر آرہا ہے۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی لیکن جب آپ واپس آتے ہیں تو اپنے ملک میں واپس آکے بتانا پڑتا ہے کہ میں یہ جیت کر آرہا ہوں اور پھر آگے سے سنے کو ملتا ہے کہ اچھا چلو ٹھیک ہے پھر ہم کیا کریں؟۔‘‘

سلمان کے مطابق ملک میں تن سازی میں کئی نامور کھلاڑی پیدا ہوئے ہیں۔ اس سے وابستہ کئی ایسے افراد ہیں، جو ملک میں بے توجہی کا شکار ہوئے اور دلبرداشتہ ہو کر بیرون ملک چلے گئے ’’ ایک تو معصوم بٹ صاحب ہیں، 91 میں وہ مسٹر پاکستان بھی رہ چکے ہیں۔ ان کو کسی بھی قسم کا سپورٹ نہیں تھا تو وہ بیچارے پاکستان چھوڑ کر چلے گئے۔ اب وہ عالمی سطح پر آئرلینڈ کی نمائندگی کرتے ہیں۔

Salman Ahmed Bodybuilder aus Pakistan
تصویر: Privat

اسی طرح 97 میں عاطف انور صاحب تھے۔ کراچی سے انکا تعلق تھا۔ وہ بھی مسٹر پاکستان تھے لیکن یہاں دو وقت کی روٹی کو ترستے تھے۔ اب وہ آسٹریلیا میں اسپانسرڈ ہیں۔ یہ سب پاکستانی کھلاڑی ہیں اور دنیا انہیں اپنے پاس بلا کر اپنے نام سے مقابلوں میں شرکت کرواتی ہے۔ اگر پاکستان میں ان لوگوں کو وہ سہولتیں میسر ہوتیں، پذیرائی ملتی اور ان سے تعاون کیا جاتا تو مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں بھی کم از کم چودہ پندرہ کھلاڑی ایسے ہوتے جن کے پاس Pro card یا پروفیشنل باڈی بلڈنگ کارڈ ہوتا‘‘۔

سلمان کے مطابق انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ وہ نہایت کم عمری میں ہی بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ گو کہ انہیں ملک میں وہ حکومتی پذیرائی نہیں ملی ہے جس کا ہر کھلاڑی حق دار ہے تاہم وہ آگے بھی پاکستان کا نام روشن کرنے کے لیے مزید بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کریں گے۔