طالبان سے بات چيت کے بغير امن ناممکن
7 جنوری 2013ماہرين کا اندازہ ہے کہ 2014ء کے بعد بھی افغانستان ميں نيٹو اور امريکا کے تقريباً 30 ہزار فوجی تعينات رہيں گے۔ بہت سے افغانوں کو يہ فکر ہے کہ غير ملکی افواج کی بڑی تعداد کے انخلاء کے بعد جنوب اور مشرق کے، پاکستان سے ملحقہ افغان علاقے دوبارہ طالبان کے قبضے ميں آ جائيں گے۔ اس ليے افغان حکومت اصرار کر رہی ہے کہ پوليس اور فوج کو بہت اچھی طرح سے مسلح کر ديا جائے۔ چنانچہ افغان صدر کے ترجمان فيضی نے کہا: ’’صدر کرزئی اور صدر اوباما کے مابين بات چيت کے اہم ترين موضوعات ميں سے ايک افغان سکيورٹی فورسز کو فراہم کيا جانے والا اسلحہ ہو گا۔ ہم نے يہ واضح کر ديا ہے کہ امريکا کو ہماری فوج اور پوليس کو ہمارے مفادات اور ضروريات کے مطابق تربيت دينا اور مسلح کرنا چاہيے۔‘‘
فيضی نے يہ بھی کہا کہ صدر کرزئی افغان فضائيہ کو جديد اسلحے کی فراہمی پر خصوصاً زور دينا چاہتے ہيں جس کے پاس اچھا اسلحہ نہيں ہے۔ امريکا نے اب تک افغان بری فوج کو ہلکے ہتھيار فراہم کرنے پر توجہ دی ہے۔ جنوبی ايشيا کے امور کے ماہر کونراڈ شيٹر نے کہا کہ امريکا نے پچھلے دس برسوں ميں پاکستان کو 18 لڑاکا طيارے ديے ہيں اور افغانستان کی بھی يہی خواہش ہے: ’’افغانستان اور پاکستان کے مابين جو مقابلہ ہے، اس کی وجہ سے افغان فضائيہ کو جديد امريکی اسلحے کی فراہمی سے دونوں ملکوں ميں تنازعہ اور بڑھ جائے گا اور اس سے امريکا اور پاکستان کے تعلقات خراب ہو جائيں گے۔ اس کی واشنگٹن ميں کوئی بھی حمايت نہيں کرے گا۔‘‘
کرزئی کا دورہء امريکا پاکستان کے لیے يہ پيغام ہے کہ افغانستان اور امريکا ميں قربت ہے اور اگر پاکستان نے اس اتحاد میں شرکت نہ کی تو وہ تنہا رہ جائے گا۔ طالبان کے ليے يہ پيغام ہے کہ اگر امن مذاکرات ہوتے ہيں، تو يہ صرف امريکا کے ساتھ نہيں ہونے چاہیئں بلکہ ان ميں افغان حکومت کی شرکت بھی لازمی ہے۔
امريکا، پاکستان اور افغانستان متفق ہيں کہ افغان تنازعے کا حل جنگ کی صورت ميں ممکن نہيں ہے۔ افغان امور کے بہت سے ماہرين کا کہنا ہے کہ بات چيت پر تيار طالبان کے بغير امن ممکن نہيں ہے۔ امريکا اس تنازعے اور افغانستان ميں فوجی کارروائی کے خاتمے کے ليے طالبان سے امن مذاکرات کی حمايت کر رہا ہے۔
W. Hazrat-Nazimi, sas / R. Ebbighausen, mm