1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سماجی ویب سائٹس ذمہ داری کے ساتھ استعمال کریں

بینش جاوید9 اکتوبر 2013

پاکستانی معاشرے میں سوشل میڈیا کا رجحان جس تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن اس تیزی سے اس کے درست استعمال کے بارے میں آگاہ نہیں کیا جا رہا۔

https://p.dw.com/p/19wmT
تصویر: Reuters

پاکستان میں تقریبا 30 ملین شہریوں کو انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے، ان میں سے دس ملین شہری فیس بک جبکہ لگ بھگ دو ملین ٹوئٹر استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ چند برسوں کے دوران ایسے چند واقعات بھی سامنے آئے ہیں، جن میں فیس بک پر جعلی اکاؤنٹ بنا کر لوگوں کو دھوکہ دیا گیا۔ اسی طرح ای میل یا سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہیک کر کے لوگوں کی ذاتی معلومات تک حاصل کئی گئیں۔ چند ماہ قبل کراچی میں فیس بک کے ذریعے ایک بچے کو اغوا کر لیا گیا تھا جو ظاہر کرتا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے سنگین جرائم کا ارتکاب کس حد تک ممکن ہے۔

پاکستان میں سوشل میڈیا کے ماہر حماد صدیقی کا کہنا ہے کہ والدین کی رہنمائی اور بچوں کی زندگیوں میں ان کی دلچسپی سے بہت سے ممکنہ خطرات سے بچا جا سکتا ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا میں سکیورٹی کے حوالے سے معلومات کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنانا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسکولوں میں اب کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو سوشل میڈیا پر کی سکیورٹی اور نقصانات کے بارے میں بھی بتایا جائے۔ حماد صدیقی کا موقف ہے کہ یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے، جب تک صوبائی حکومتیں کمپیوٹر کے نصاب میں سوشل میڈیا سکیورٹی اینڈ سیفٹی کے مضمون شامل نہیں کرتیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فیس بک یا موبائل کے غلط استعمال کے باعث پیش آنے والے سنگین جرائم کے بارے میں بھی طلبا کو بتایا جانا ضروری ہے۔

Symbolbild Button Add as Friend
سوشل میڈیا پرجلدی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، شہنیلا سکندرتصویر: Fotolia/Thesimplify

نیوز ویب سائٹ سچ ڈاٹ ٹی وی پاکستان کے نوجوانوں اور عام شہریوں کو کالم اور بلاگ لکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ سچ ڈاٹ ٹی وی کی ایڈیٹر شنیلا سکندر سوشل میڈیا کے ممکنہ خطرات سے متعلق کہتی ہیں۔’’ اس وقت سوشل میڈیا پر بہت سے جعلی اکاؤنٹس موجود ہیں۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ جب بھی انہیں دوست بننے کی درخواست بھیجتا ہے تو تصدیق کیے بغیر اسے قبول نہ کریں۔ ذاتی زند گی میں ہم ہر کسی پر اعتبار نہیں کرتے تو سوشل میڈیا پراتنی جلدی بھروسہ کیسے کر لیتے ہیں ‘‘۔

Amazon Deutschland Arbeitsbedingungen
ضروری ہے کہ بچوں کو سوشل میڈیا پر کی سکیورٹی اور نقصانات کے بارے میں بھی بتایا جائے، ماد صدیقیتصویر: imago stock&people

سوشل میڈیا کے ایک فعال صارف فیصل کپاڈیا کی رائے میں والدین کو سافٹ ویئر کے ذریعے انٹرنیٹ پر اپنے بچوں کی سرگرمیوں کو دیکھنا چاہیے اور بچوں کو بتانا چاہیے کہ انٹرنیٹ پر ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ فیس بک کی ایک صارف ثمینہ صدیقی کہتی ہیں کہ معاشرے میں سمارٹ فونز کا استعمال دولت اور اعلیٰ مقام رکھنے کی علامت بن چکا ہے لیکن نابالغوں کو سمارٹ فونز دینےسے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا نہایت مشکل ہے۔

دوسری جانب شنیلا کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر اپنی ذاتی معلومات نہ دیں جیسے مو بائل نمبر، گھر کا پتہ اور ذاتی تصاویر۔ ان کے بقول اپنا اسٹیٹس لکھتے وقت بھی احتیاط کریں۔ کبھی بھی یہ نا لکھیں کہ آپ کہاں ہیں اور کیا کر ر ہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے فیس بک یا ٹوئٹر پر لکھا ہوتا ہے کہ میں گھر میں تنہا ہوں، اسکول یا کالج کے راستے میں ہوں یا فلاں مارکیٹ میں ہوں۔ اس طرح مضموم عزائم رکھنے والے لوگوں کے مقاصد آسان ہو جاتے ہیں۔