1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جعلی ادویات، افریقہ میں انسانی جانوں سے زیادہ قیمتی

عاطف توقیر22 اگست 2013

کیمرون سے آئیوری کوسٹ اور کینیا سے ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو تک جعلی ادویات کے تاجر اپنا دھندا کھلے عام چلاتے نظر آتے ہیں۔ ان جعلی ادویات کے ذریعے پیسہ کمانے والے کے لیے انسانی جان بے وقعت نظر آتی ہے۔

https://p.dw.com/p/19Uh3
تصویر: Alexander Joe/AFP/Getty Images

کیمرون کے دارالحکومت یااُنڈے میں ایک دوا فروش دوکان کے باہر ایک بینر پر تحریر ہے، ’گلی کوچے کی ادویات قاتل ہیں۔ یہ ادویات محفوظ نہیں۔‘ اس بینر کو اس دکان کے سامنے آویزاں کر کے عوام کو مطلع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ افریقہ کے متعدد دیگر علاقوں کی طرح خطرناک جعلی ادویات کی فروخت کے حوالے سے نمایاں ہے۔

کیمرون میں ملیریا جیسے مرض کی دوا ہو یا درد کش گولیاں، جراثیم کش کیپسول ہوں یا جسم میں پانی کی کمی پورا کرنے کے سیرپ، جعلی ادویات نہایت آسانی مگر مہنگے داموں دستیاب ہیں۔

افریقہ میں خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مختلف دفاتر نے اس حوالے سے مفصل معلومات جمع کی ہے۔ AFP کے مطابق افریقہ بھر میں جعلی ادویات کی بھرمار ہے اور تیارکنندگان اور ترسیل کنندگان دونوں ہی ان غیرقانونی سرگرمیوں سے خوب خوب پیسہ بنا رہے ہیں۔

یاآونڈے کے مرکز میں قائم ایک مارکیٹ میں گلی کوچوں میں بننے والی ادویات فروخت کرنے والے بلائزے ڈجومو کے مطابق ،’یہ طاقت ور ڈِکلوفینِک (ورم کشا دوا) ہے۔ یہ یہاں خوب بکتی ہے۔ اور یہ ویاگرا ہے، کیمرون کے لوگ اس کے پیچھے پاگل ہیں۔‘

Peru Fake Medizin Flash-Galerie
تصویر: ap

ڈجومو ہی نہیں، یاآونڈے میں ہر گلی ہر جگہ یہ نیم حکیم اور جعلی ادویات فروش عوام کے سامنے ادویات کے ڈھیر لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ لکڑی کے چھوٹے چھوٹے اسٹالز لیے ان ’موت‘ فروخت کرنے والے تاجروں کے پاس ادویات کے کئی پیکٹ تو ایسے بھی دکھائی دیں گے، جنہیں ببل گم کی مدد سے بند کیا گیا ہو گا۔

ان تاجروں سے ایک گولی بھی خریدی جا سکتی ہے۔ کیمرون میں ایشیائے صرف کی دکانوں میں بھی فروخت کے لیے دستیاب ادویات دکھائی دیتی ہیں۔ یہ تاجر کبھی کبھی اصل اور جعلی ادویات کو ملا کر بھی فروخت کرتے ہیں۔ اصل ادویات کبھی تو قانونی طور پر خریدی جاتی ہیں اور کبھی کبھی مختلف ہسپتالوں اور کلینکس سے چرائی جاتی ہیں۔

فائدہ تو خیر کیا ہونا ہے،کوئی خوش قسمت ہو تو کوئی نقصان نہیں پہنچاتی۔ مگر کبھی کبھی یہ ادویات زہرِ قاتل بھی بن جاتی ہیں۔ ہر دو صورتوں میں ان ادویات کی اسمگلنگ اور سپلائی کے درپردہ ایک بہت بڑے سرمایے کی ریل پیل نظر آتی ہے۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم UNODC نے فروری میں ایک عالمی کانفرنس میں خبردار کیا تھا کہ جعلی ادویات کا کاروبار براعظم افریقہ میں کئی بلین ڈالر کی مالیت تک پہنچ چکا ہے اور افریقہ میں بعض مقامات پر اس منڈی کا تقریبا 30 فیصد صرف جعلی ادویات پر مشتمل ہے۔ اس عالمی ادارے کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ’جعلی ادویات کے استعمال انسانی جانوں کے لیے نقصان دہ اور کبھی کبھی ہلاکت خیز بھی ثابت ہو رہا ہے۔ جب کہ ان کی وجہ سے افریقہ میں متعدد مقامات پر منظم جرائم کو بھی شہ مل رہی ہے۔‘

آئیوری کوسٹ کی نیشنل آرڈر آف فارماسیسٹس کی سن 2005 تا 2012 ء تک سربراہی کرنے والے پرفائیٹ کوآسی کے مطابق، ’ان جعلی ادویات کی سپلائی کے دو عمومی راستے ہیں۔ ایک تو چھوٹے اسمگلر انہیں ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل کرتے ہیں اور دوسری جانب بین الاقوامی جرائم پیشہ نیٹ ورکس متحرک ہیں۔ جعلی ادویات کے زیادہ تر تیار کنندگان بھارت اور چین میں ہیں۔‘