تھائی لینڈ میں فوجی بغاوت
22 مئی 2014تھائی لینڈ کی نئی فوجی حکومت نے ملک میں فوجی بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے ملکی آئین کو معطل کر دیا ہے۔ آج جمعرات کو فوج کی طرف سے قومی ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے ایک بیان میں قومی عبوری حکومت کے خاتمے کی تصدیق کر دی گئی۔ اس بیان میں تاہم یہ کہا گیا ہے کہ موجودہ سینیٹ قائم رہے گی۔
اس اعلان سے دو گھنٹے پہلے تھائی لینڈ کے آرمی چیف پرایُت چان اوچا (Prayuth Chan ocha) نے کہا تھا کہ چھ ماہ سے جاری سیاسی انتشار اور حکومت مخالف خونریز مظاہروں کے پیش نظر فوج اقتدار اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے۔ اُنہوں نے یہ اعلان اُس اجلاس کی ناکامی کے بعد کیا، جس میں تھائی لینڈ کے سیاسی بحران کا کوئی مفاہمانہ حل تلاش کرنے کے لیے متحارب سیاسی دھڑوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ فوجی بغاوت کے فوراً بعد ہی تھائی لینڈ میں مہینوں سے جاری حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے اور کئی ماہ سے مسلسل مظاہرے کرنے والوں کا ہجوم منتشر ہو گیا ہے۔
تھائی ٹیلی وژن پر سیاسیات کے ایک سابق پروفیسر ایک ٹی وی ٹاک شو میں ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے موضوع پر گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک ان کی گفتگو کا سلسلہ منقطع ہوا اور ملک کی پیس اینڈ آرڈر مینٹیننگ کمانڈ کے آرڈر نمبر نو کے تحت فوج کی طرف سے میڈیا پر تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور سابق حکومتی اہلکاروں کے انٹرویوز پر پابندی کا حکم نامہ جاری کر دیا گیا۔ اس کے فوراً بعد ٹاک شو کی موڈریٹر نے اپنے پروگرام کے مہمانوں سے معذرت چاہتے ہوئے کہا،"ہمیں اپنا شو یہیں ختم کرنا ہو گا"۔
گزشتہ منگل کو ایک آزاد ٹیلی وژن اسٹیشن کے اسٹوڈیو میں پیش آنے والے اس واقعے کے تھوڑی ہی دیر بعد دارالحکومت بنکاک میں فوج کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ دارالحکومت اور ملک کے طول و عرض میں مارشل لاء لگا دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ہنگامی حالت کا بھی نفاذ کر دیا گیا۔ فوج کا کہنا تھا کہ مارشل لاء کا مقصد ملک میں امن کا قیام اور قانون کی حکمرانی ہے۔ فوج نے عوام کو یہ تلقین بھی کی کہ وہ مارشل لاء کے نفاذ سے افراتفری کا شکار نہ ہوں۔
تھائی فوج کے سربراہ جنرل پرایُت چان اوچا (Prayuth Chan ocha) نے جو مارشل لاء نافذ کیا ہے، اس کے بعد پورے ملک میں امن عامہ اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری سویلین حکومت اور پولیس سے فوج کو منتقل ہو گئی تھی۔ دوسری جانب عبوری وزیراعظم کے ایک مشیر کا کہنا تھا کہ فوج نے مارشل لگاتے ہوئے اُن کی حکومت سے مشاورت نہیں کی ہے اور وہ بدستور اپنی جگہ قائم ہے۔ دریں اثناء تھائی لینڈ کی سیاسی برادری اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم عناصر کے گروپوں نے فوج پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُس نے مظاہرین کی بجائے میڈیا کو ہدف بنایا ہے۔
تھائی مسلح افواج ملک کے سیاسی معاملات میں مداخلت کی ایک طویل تاریخ رکھتی ہیں۔ تھائی لینڈ میں 1932ء میں آئینی بادشاہت قائم ہونے کے بعد سے اب تک اٹھارہ بغاوتیں یا بغاوت کی کوششیں ہو چکی ہیں۔