1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت

28 مارچ 2014

پاکستانی صوبہ پنجاب کی ایک عدالت نے توہین رسالت کے جرم میں ساون مسیح نامی شخص کو سزائے موت سنائی ہے۔ ساون پر الزام تھا کہ اس نے اپنے مسلمان دوستوں کے ساتھ گفتگو کے دوران پیغمبر اسلام کے لیے توہین آمیز کلمات ادا کیے تھے۔

https://p.dw.com/p/1BXZZ
تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

پاکستان کے شمال مشرقی صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ایک عدالت کے جج غلام مرتضیٰ چوہدری نے ساون مسیح کو موت کی یہ سزا سنائی۔ ساون مسیح لاہور کی جوزف کالونی کا رہائشی ہے۔ ایک برس قبل اس کے خلاف توہین رسالت کا الزام سامنے آنے کے بعد تین ہزار کے قریب مسلمانوں نے جوزف کالونی میں دھاوا بولتے ہوئے مسیحیوں کے ایک سو سے زائد مکانات نذر آتش کر دیے تھے۔

ساون پر الزام تھا کہ اس نے اپنے مسلمان دوستوں کے ساتھ گفتگو کے دوران پیغمبر اسلام کے لیے ’توہین آمیز‘ کلمات ادا کیے تھے۔ ساون مسیح کے وکیل نعیم شاکر کے مطابق ، ’’آج جج نے فیصلہ سنایا ہے جس میں ساون کو پھانسی اور جرمانے کی سزائیں دی گئی ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ساون مسیح اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

1990ء سے 2012ء کے درمیان کم از کم 52 افراد کو توہین مذہب کے الزامات کے تحت ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کیا
1990ء سے 2012ء کے درمیان کم از کم 52 افراد کو توہین مذہب کے الزامات کے تحت ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کیاتصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس وقت پاکستان میں کم از کم 16 افراد توہین مذہب کے الزامات کے تحت سزائے موت کے منتظر ہیں جبکہ کم از کم 20 دیگر عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔ تاہم اب تک پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات کے تحت کسی کی بھی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ہے۔ روئٹرز کے مطابق اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ انہیں اس طرح کے الزامات لگائے جانے کی دھمکیوں کا اکثر سامنا رہتا ہے۔

روئٹرز کے مطابق پاکستانی عدالتیں اکثر توہین مذہب سے متعلق شہادتیں سننے سے احتراز کرتی ہیں جس کی وجہ یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں ان شہادتوں کو پیش کرنا بھی توہین مذہب کے زمرے میں ہی نہ آ جائے۔ پاکستان میں ایسے افراد جو اس قانون میں تبدیلی کے لیے کوشاں ہیں ان کا کہنا ہے کہ اسے اکثر لوگوں کی جائیداد یا پیسے پر قبضے کے لیے غلط طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

ایسے افراد جن پر توہین مذہب کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں اکثر انہیں عدالت تک لے جانے کی مہلت بھی نہیں مل پاتی۔

اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک ’سينٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی‘ کی رپورٹ کے مطابق 1990ء سے 2012ء کے درمیان کم از کم 52 افراد کو توہین مذہب کے الزامات کے تحت ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کیا۔

اس رپورٹ کے مطابق ایسے ججوں پر بھی حملے کیے گئے جنہوں نے توہین مذہب کے الزمات کا سامنا کرنے والے افراد کو رہا کرنے کے احکامات دیے۔