1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تعلیم سب کا حق ہے

8 مئی 2012

تعلیم انسانی حقوق میں سے ایک ہے اور 2000ء میں یونیسکو کی سربراہی میں منعقدہ ایک کانفرنس میں 164 ملکوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم ایک بڑا سوال ابھی باقی ہے کہ کیا 2015ء کے لیے طے کردہ اہداف حاصل کیے جا سکیں گے؟

https://p.dw.com/p/14rs6
تصویر: AP

اسپین میں حال ہی میں طالب علموں نے یونیورسٹیوں کی نجکاری کے خلاف مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے احتجاجی نعروں پر مبنی جو پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، ان میں سے ایک پر یہ الفاظ درج تھے: ’’ہمیں افرادی قوت کے طور پر نہ دیکھا جائے بلکہ اس سے قطع نظر ہمیں تعلیم چاہیے۔‘‘

جرمن انسٹی ٹیوٹ برائے انسانی حقوق کی کلاؤڈیا لوہرین شائٹ کہتی ہیں: ’’لوگوں کے اقتصادی و سماجی پس منظر سے قطع نظر انہیں اسکولوں اور تعلیم تک آزادانہ رسائی دینا ریاست کی ذمہ داریوں کا حصہ ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اسی طرح کوئی بھی ریاست یونیورسل ڈیکلیئریشن آف ہیومن رائٹس کے تحت کیا گیا اپنا وعدہ نبھا سکتی ہے۔

اس حوالے سے محض پسماندہ ممالک ہی ناکام نہیں ہوئے بلکہ جب تعلیم اور انسانی حقوق کی بات ہوتی ہے تو مغرب کے صنعتی ملکوں کو بھی مسائل کا سامنا ہے۔

’’مالیاتی وجوہات سے وقوع پذیر ہونے والی عالمگیریت‘‘ دنیا بھر میں تبدیلیوں کی وجہ بھی ہے۔ یہی بات اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی (UNCTAD) کی حالیہ رپورٹ میں بھی سامنے آئی ہے۔

جہاں جہاں ریاست قدم پیچھے ہٹاتی ہے تو اس سے پیدا ہونے والی خلیج کو زیادہ سے زیادہ نجی ادارے پُر کرتے ہیں۔

تاہم تعلیم کے فروغ کے لیے اس طرح کی مالی معاونت نہ صرف اس تک رسائی کو محدود بناتی ہے بلکہ نصاب کو بھی مالی وسائل فراہم کرنے والوں کی خواہشات کے تناظر میں دیکھنا پڑتا ہے۔

Symbolbild Schule Unterricht Schüler Lehrerin
تعلیم کا مطلب یہ بھی ہے کہ طالب علموں کو مستقبل کی ملازمتوں کے قابل بنایا جائےتصویر: Fotolia/pressmaster

سمت کا تعین

جرمن کمیشن برائے یونیسکو کے لُٹس میولر کہتے ہیں: ’’اس طرح کے مالی وسائل کے زیادہ فائدے ہیں یا زیادہ نقصانات، یہ کھُلا سوال ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ریاست کی جانب سے ایسا مضبوط ڈھانچہ تشکیل دیے جانے کی ضرورت ہے، جس کے ذریعے سارے معاشرے میں تعلیم تک منصفانہ رسائی کو یقینی بنایا جائے۔ میولر کہتے ہیں کہ اس طرح امراء کی جانب سے فراہم کردہ سرمایہ غریبوں کے خلاف تعصب کی وجہ بھی نہیں بنے گا۔

تعلیم کا مطلب یہ بھی ہے کہ طالب علموں کو مستقبل کی ملازمتوں کے قابل بنایا جائے۔ تاہم جب تعلیم کا بنیادی مقصد طَلبہ کو نوکریوں کے لیے تیار کرنا ہو تو ہو سکتا ہے کہ تعلیم کے حوالے سے انسانی حقوق پورے نہ ہو رہے ہوں۔

تاہم اس کے برعکس ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ جب تعلیم لوگوں کو ملازمتوں کے لیے تیار کرنے میں ناکام ہو جائے تو طَلبہ نے جو کچھ سیکھا ہو، اسے وہ بہت جلد بھول جاتے ہیں۔

انفرادی ترقی کی اہمیت

1970ء کی دہائی میں برازیل کے مدرس پاؤلو فریئر نے ناخواندگی کے خاتمے کے لیے اپنی مہم کے دوران ایسے ہی مشاہدات بیان کیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر لوگ پڑھنا اور لکھنا تو سیکھیں لیکن اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ان صلاحیتوں کا استعمال نہ کر پائیں تو وہ ان صلاحیتوں کو بہت جلد بھول جاتے ہیں۔

Arbeiter in Afrika Fabrik - Mangelnde Perspektiven und große Träume
ملازمتوں کے لیے درکار صلاحیتوں کو مدِ نظر رکھنا بھی اہم ہےتصویر: AP

جرمن انسٹی ٹیوٹ برائے انسانی حقوق کی کلاؤڈیا لوہرین شائٹ کہتی ہیں کہ تعلیم کا کردار ہمیشہ لوگوں کو اس قابل بنانا ہونا چاہیے کہ وہ آزادانہ طور پر اسے اپنے حالات بہتر بنانے کے لیے استعمال کر سکیں، بصورتِ دیگر وہ اپنی مرضی سے تعلیم کے حق سے دستبردار ہو جائیں گے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی معاشرے میں کمزور طبقے کو حاصل تعلیم کی سہولتوں سے وہاں تہذیب اور انسانیت کی سطح کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

آسان رسائی

پسماندہ گروہوں کے لیے تعلیم کے حصول کے مواقع ایک اہم مسئلہ ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ کی سابق خصوصی مندوب برائے رائٹ ٹو ایجوکیشن Katarina Tomasevski کو یہ تحریک دی کہ اس حوالے سے اصولوں کا تعین کریں۔ انہوں نے چار معیاری اصول ترتیب دیے، جن میں فراہمی، رسائی، مطابقت اور قبولیت شامل ہیں۔ انگریزی زبان میں ان میں availability, accessibility, adaptability اور acceptability شامل ہیں، جس کی وجہ سے اسے Four A's کہا گیا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ دنیا کے بیشتر حصوں میں ان اصولوں میں سے پہلا، یعنی فراہمی ہی پورا نہ ہو پاتا ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بہت سے دیہی علاقوں میں سرے سے ہی اسکول نہ ہوں۔

Deutschland Schule Grundschule Schülerin macht Hausaufgaben Mathematik
ڈیڑھ سو سے زائد ممالک چھ تعلیمی اہداف پر متفق ہو چکے ہیںتصویر: picture-alliance/Frank May

بنیادی تعلیم

بچوں کے لیے کسی نہ کسی طرح کی تعلیم کے مواقع بہتر بنانے کے لیے 2000ء میں اقوام متحدہ نے ڈاکار میں ورلڈ ایجوکیشن فورم منعقد کیا تھا۔ اس میں 164 ممالک شریک ہوئے تھے اور انہوں نے چھ بنیادی تعلیمی اہداف پر اتفاق کیا تھا۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ 2015ء تک پرائمری سطح کی تعلیم کو ہر بچے کے لیے ممکن بنایا جائے گا۔

آج بھی دنیا میں پرائمری اسکول جانے کی عمر کے تقریباﹰ ستّر ملین بچے ہیں، جنہیں اسکول تک رسائی نہیں ہے۔ ان میں سے بیشتر جنوب مشرقی ایشیا، جنوبی ایشیا اور افریقی ملکوں میں رہتے ہیں۔

ان اہداف کے حوالے سے میولر کہتے ہیں: ’’اس وقت سے کم از کم چالیس ملین بچوں کو بنیادی تعلیم فراہم کی گئی ہے۔‘‘

یونیسکو کے ماہرین کے مطابق یہ بڑی کامیابی ہے کہ اس وقت سے اسکولوں میں لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک اور ہدف (دنیا بھر میں بالغان میں ناخواندگی میں کمی) کے حوالے سے بھی اہم پیش رفت ہوئی ہے۔

Sitz der Unesco
یونیسکو کے مطابق بہت سے اسکولوں میں بنیادی سہولتیں بھی دستیاب نہیںتصویر: picture-alliance/dpa

معیار کی اہمیت

ایک اور بڑا مسئلہ، جس پر یونیسکو قابو پانا چاہتی ہے، وہ ہے بہت سے خطوں میں غیرمعیاری تعلیم۔ دنیا بھر میں دو ملین قابل اساتذہ کی ضرورت ہے جبکہ بہت سے تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولتیں دستیاب نہیں۔ یونیسکو نے تعلیم کے حوالے سے 2011ء کی اپنی رپورٹ میں ان حالات کا ذکر کیا ہے، ساتھ ہی امیر ملکوں سے اپیل کی ہے کہ ترقیاتی امداد سے متعلق اپنے وعدے پورے کریں۔

اگرچہ تعلیمی نظام امن کے قیام، تنازعات پر قابو پانے اور مصالحت کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تاہم اس کے برعکس اکثر یہ نظام آبادی کے کسی خاص حصے کے خلاف تعصبات کو ہوا دیتے ہوئے اور تشدد کی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

جمہوریت کا فروغ

پرامن اور تعصب سے پاک زندگی کے ساتھ تعلیم دینا صرف ترقی پذیر ملکوں کا ہی ہدف نہیں ہے۔ امیر اور صنعتی ملکوں کو بھی یہ مسائل درپیش ہیں کہ وہ اقلیتوں سے کیسے پیش آئیں۔

جرمنی میں ابھی حال ہی میں جسمانی یا ذہنی معذور بچوں کو علیحدہ اسکولوں میں بھیجا گیا۔ لوہرین شائٹ کہتی ہیں کہ یہ وہ نظام ہے جس سے یہ پیغام ملا کہ اخراج اور امتیازی رویہ قابلِ قبول ہے۔

دنیا میں انسانی ‌حقوق اور جمہوریت کا فروغ تعلیم کے اہداف میں شامل ہے۔ لوہرین شائٹ کا کہنا ہے کہ تعلیم انسان کا حق ہے جو اچھی طرح اسی وقت پورا ہوتا ہے جب یہ افراد کو خودمختار بنائے تاکہ وہ اپنی زندگیوں کو اپنے ہاتھوں میں لے سکیں۔

ان کا مزید کہنا ہے: ’’تعلیم ہر فرد کا حق ہے، یہ بھی ان کا حق ہے کہ وہ اپنی ذات کو پہچانیں تاکہ عزت کرنا سیکھیں اور اس کے ساتھ ہی انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کی قدر کریں۔

تحریر: اُلریکے ماسٹ کرشننگ ng/gsw/

ادارت: افسر اعوان