1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: اجتماعی زيادتی کا ايک اور واقعہ

عاصم سليم3 جون 2014

بھارتی رياست اتر پريش ميں مبينہ طور پر اجتماعی زيادتی کا نشانہ بننے والی ايک اور عورت کی لاش برآمد ہوئی ہے جبکہ اسی دوران لکھنؤ ميں پوليس نے جنسی جرائم کے خلاف آواز اٹھانے والے مظاہرين کے خلاف طاقت کا استعمال کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CArx
تصویر: picture-alliance/AP

جرمن نيوز ايجنسی ڈی پی اے کے مطابق بھارت کی شمالی رياست اتر پرديش ميں پوليس اہلکار ايک 22 سالہ عورت کی لاش کی شناخت کی کوششيں جاری رکھے ہوئے ہيں۔ اہلکاروں کے بقول مقتولہ کو اجتماعی زيادتی کا نشانہ بنايا گيا، اُس پر جبر کيا گيا اور اُس پر تيزاب بھی پھينکا گيا۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی ميں وومن اينڈ چائلڈ ڈيویلپمنٹ کی وزير منيکا گاندھی نے پير کے روز بتايا کہ 22 سالہ عورت کی لاش بريلی ضلعے کے ايک گاؤں سے برآمد ہوئی۔ يہ گاؤں بدايوں ضلعے کے اس ايک اور گاؤں سے قريب 45 کلوميٹر شمال مشرق ميں واقع ہے، جہاں 14 اور 16 سالہ دو لڑکيوں کو منگل 27 مئی کے روز اغواء کر کے اجتماعی زيادتی کا نشانہ بنايا گيا اور پھر انہيں قتل کر ديا گيا۔ ان دونوں لڑکيوں کی لاشيں بدھ کے روز ايک پيڑ سے لٹکی ملی تھيں۔

مظاہرين نے پیر دو جون کو رياستی دارالحکومت لکھنؤ ميں احتجاج کیا
مظاہرين نے پیر دو جون کو رياستی دارالحکومت لکھنؤ ميں احتجاج کیاتصویر: Reuters

منيکا گاندھی نے دونوں واقعات پر گہرے رنج کا اظہار کرتے ہوئے بتايا کہ رياست اتر پرديش کی حکومت پر زور ديا گيا ہے کہ وہ اس سلسلے ميں مناسب کارروائی کرے۔ انہوں نے مزيد بتايا کہ وفاقی حکومت زيادتی کا شکار بننے والی عورتوں کے ليے ملک کے ہر ضلعے ميں خصوصی مراکز قائم کرے گی، جہاں زيادتی کا شکار بننے والی عورتوں کو قانونی و طبی مدد فراہم کی جائے گی۔

احتجاجی مظاہرين کے خلاف لاٹھی چارج

دريں اثناء بھارت کی سب سے بڑی رياست اتر پرديش ميں اجتماعی زيادتی کے تازہ واقعات پر کئی سو مظاہرين نے پیر دو جون کو رياستی دارالحکومت لکھنؤ ميں احتجاج کیا۔ مظاہرين نے رياستی وزير اعلٰی کے دفتر کے باہر احتجاج کيا۔ مظاہرين کی اکثريت خواتين پر مشتمل تھی اور وہ پچھلے ہفتے اتر پرديش ہی ميں دو لڑکيوں کے ساتھ اجتماعی زيادتی اور پھر ان کے قتل کے خلاف آواز اٹھا رہی تھيں۔ پوليس نے مظاہرين کے خلاف پانی کی تيز دھار استعمال کی اور لاٹھی چارج بھی کيا۔

گزشتہ ہفتے اجتماعی زيادتی کا شکار بننے والی مقتولہ لڑکيوں ميں سے ايک کے والد نے مقامی پوليس پر الزام عائد کيا ہے کہ پوليس نے ابتداء ميں ان کی مدد کرنے سے اس ليے انکار کر ديا کيونکہ متعلقہ خاندان کا تعلق بھارت ميں کمتر مانی جانے والی ’دلِت‘ برادری سے ہے۔ پوليس نے اس سلسلے ميں پانچ افراد کو زير حراست ليا ہے، جو تمام کے تمام اونچی ذات سے تعلق رکھتے ہيں۔ اس کے علاوہ اس کيس کی وفاقی سطح پر تحقيقات کا حکم بھی دے ديا گيا ہے۔

دوسری جانب انسانی حقوق سے متعلق اہلکار اور سياستدانوں کا کہنا ہے کہ ان تازہ واقعات يہ ظاہر ہوتا ہے کہ اتر پرديش کے حکام جنسی نوعيت کے جرائم کی روک تھام کے معاملے ميں سنجيدہ نہيں ہيں۔ واضح رہے کہ اتر پرديش ميں سوشلسٹ سماج وادی پارٹی کی حکومت قائم ہے۔ رياست کے وزير اعلی اکھيليش يادو ہيں۔