1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان: ہتھیار ڈالنے والوں کے لیے مراعات

عبدا لغنی کاکڑ، کوئٹہ24 مارچ 2014

پاکستانی صوبہ بلوچستان میں 60 علیحدگی پسند باغیوں نے ہتھیار ڈال کر حکومت کی عمل داری تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان میں کالعدم تنظیم بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے) کے ایک درجن سے زائد سینیئر کمانڈرز بھی شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/1BUuK
Militär Pakistan
تصویر: DW/Abdul Ghani Kakar

قبا ئلی عمائدین کی موجودگی میں ہتھیار ڈال کر حکومت کی عمل داری تسلیم کرنے والے ان جنگجوؤں میں سے اکثریت کا تعلق بگٹی قبیلے کے مختلف زیلی شاخوں سے ہے۔ ان فراریوں میں بی آر اے کے سات اہم کمانڈرز بنگل خان بگٹی، دھنی بخش شمبھانی، جنگی ہان، منظور کرمانی، رندک کوڈر اور دیگر شامل ہیں۔ یہ افراد ماضی میں پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ تاہم ہتھیار پھینکنے کے بعد حکومت نے اب ان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے۔

ہتھیار ڈالنے والوں میں کالعدم تنظیم بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے) کے ایک درجن سے زائد سینیئر کمانڈرز بھی شامل ہیں
ہتھیار ڈالنے والوں میں کالعدم تنظیم بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے) کے ایک درجن سے زائد سینیئر کمانڈرز بھی شامل ہیںتصویر: DW/Abdul Ghani Kakar

بلوچستان کے سینیئر وزیر عبدالرحیم زیارت وال کا کہنا ہے کہ بہتر اورمخلصانہ پالیسیوں کی وجہ سے بھٹکے ہوئے لوگ پہاڑوں سے واپس آرہے ہیں اور فیڈریشن کی دلچسپی سے صوبے میں ان حالات میں مزید بہتری واقع ہو گی۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا: ’’یہ وفاق کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اکائیوں کو اسی طرح مطمئین کرنے کے لیے اقدامات کرتا رہے۔ صوبائی حکومت کی یہ اولین کوشش ہے کہ ہم ان باغی گروپوں کو اپنی مثبت پالیسی سے آگاہ کریں اور انہیں اس بات پر قائل کر سکیں کہ وہ مسلح جدوجہد چھوڑ دیں اورصوبے میں پر امن جدوجہد کی راہ اپنائیں۔‘‘

اطلاعات کے مطابق بلوچستان میں باغی گروپوں کے افراد ماضی میں بھی سینکڑوں کی تعداد میں ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ تاہم یہ کالعدم مسلح تنظیمں ان کی تردید کرتی آئی ہیں۔ بلوچ قوم پرست جماعت بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کا مؤقف بھی اس سے مختلف نہیں ہے: ’’میرے خیال میں حکومت نے روز اول سے بلوچستان کے مسئلے پر کبھی توجہ نہیں دی ہے اور بلوچستان ان کے اقتدار کی سیڑھی کا حصہ نہیں رہا ہے۔ وہ صرف اپنا دور گزار رہی ہے تاکہ ان کی حکومت پر کوئی دھبہ نہ لگے۔ جس طرح دیگر لوگوں کو انہوں نے ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا ہے مجھے تو لگتا ہے کہ وہ ہماری جماعت کوبھی اس حد تک دھکیلے گی کہ اس کے کارکن بھی ہتھیار اٹھانے کا سہارا لیں۔ ماضی میں بھی نا انصافی کی وجہ سے لوگوں نے ہتھیار اٹھائے۔‘‘

محکمہ داخلہ کے ذرائع کے مطابق حکومت اور بیرون ملک مقیم ناراض بلوچ رہنماؤں کے ساتھ رابطوں میں بھی اہم پیش رفت ہوئی ہے اور بعض رہنماؤں کی جانب سے صوبے میں ان کے حق خود اداریت کے حوالے سے چند اہم مطالبات بھی پیش کیے گئے ہیں جن پر مرکزی حکومت غور کر رہی ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حکومت بلوچستان نے مسلح جدوجہد کی راہ ترک کر کے محب وطن بننے کا عہد کرنے والے فراریوں کو عام معافی دینے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے ایک خصوصی پیکج کا بھی اعلان کیا ہے جن میں مختلف مراعات اوران کے علاقوں کی ترقی کے لیے اقدمات شامل ہیں۔