1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی جوہری پروگرام اور مذاکراتی عمل کی پیچیدگی

عابد حسین18 فروری 2014

ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام پر گزشتہ برس عبوری ڈیل سامنے ضرور آ چکی ہے لیکن ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ حتمی ڈیل تک پہنچنا اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1BAih
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ایتصویر: picture-alliance/AP

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے پیر کے روز کہا ہے کہ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ مذاکراتی عمل کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ ایران میں خامنہ ای کو ریاست کے تمام معاملات میں با اختیار سمجھا جاتا ہے۔ مذاکراتی عمل کے بےنتیجہ رہنے کے حوالے سے وہ اپنے خیالات کا پہلے بھی اظہار کر چکے ہیں۔ عالمی طاقتوں کے ساتھ جاری مذاکرات کی کامیابی کے حوالے سے خامنہ ای نے ضرور اپنے شکوک کا اظہار کیا ہے لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران حکومت چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کا عہد کیے ہوئے ہے۔ ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے والی چھ طاقتوں میں برطانیہ، روس، چین، امریکا، فرانس اور جرمنی شامل ہیں۔

Antiamerikanismus im Iran
ایرانی لیڈر کی تقریر کے دوران اجتماع کے شرکا مسلسل امریکا مخالف نعرےبازی کرتے رہےتصویر: picture-alliance/dpa

اسی طرح پیر ہی کے روز امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ افسر نے بھی نام مخفی رکھتے ہوئے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں کسی بڑی پیش رفت کا امکان کم ہے۔ یورپی ملک آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری معاملات پر شروع مذاکراتی عمل انتہائی پیچیدہ اور مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ طوالت بھی اختیار کر سکتا ہے۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ مذاکراتی عمل کے انجام پر کسی حتمی ڈیل تک پہنچنا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر نے ایران کے شمالی شہر تبریز میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کا عمل جو اُن کے ملک کے اہلکاروں نے شروع کر رکھا ہے، اُس سے منحرف یا پیچھے نہیں ہٹا جائے گا۔ خامنہ ای کا مزید کہنا تھا کہ وہ مذاکراتی عمل کے مخالف نہیں ہیں اور اگر اس عمل میں کامیابی ہوتی ہے تو یقینی طور پر ایران اور مغرب میں پیدا شدہ دوری اور کشیدگی کا خاتمہ ہو سکے گا۔ خامنہ ای کے مطابق ڈیل ہونے کی صورت میں مشرقِ وسطیٰ میں پیدا ایک نئی جنگ کا خطرہ جہاں ختم ہو گا وہاں مغرب اور ایران کے درمیان کاروبار و تجارت کے نئے مواقع جنم لیں گے۔ ایرانی لیڈر کی تقریر کے دوران اجتماع کے شرکا مسلسل امریکا مخالف نعرےبازی کرتے رہے۔

Khamenei Rohani Präsident Iran
ایرانی صدر حسن روحانی اور آیت اللہ خامنہ ایتصویر: picture-alliance/dpa

تجزیہ کاروں کے خیال میں ایرانی سپریم لیڈر کا اپنے شکوک و شبہات کے باوجود مذاکراتی عمل جاری رکھنے کا عمل اصل میں کمزور ایرانی معیشت کے تناظر میں ہے۔ ایران کو ان دنوں سنگین اقتصادی مسائل کا سامنا ہے۔ مسلسل بڑھتی مہنگائی اور افراطِ زر کی بڑی شرح نے ایرانی اقتصادیات کو معذور کر رکھا ہے۔ عالمی پابندیوں کی وجہ سے ایران کے خام تیل کے گاہک بھی کم ہو چکے ہیں۔

ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات کا نیا سلسلہ آج منگل سے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں شروع ہو رہا ہے۔ ایرانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کر رہے ہیں اور اُن کی معاونت نائب وزیر خارجہ عباس عَراقچی کریں گے۔ ویانا میں شروع ہونے والا مذاکراتی عمل طویل ہو سکتا ہے۔ یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف کییتھرین ایشٹن چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ تعاون و رابطہ کاری کے علاوہ مذاکراتی وفد کی قیادت بھی کر رہی ہیں۔