1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انقلابی شاعر حبیب جالب کی 20 ویں برسی

12 مارچ 2013

پاکستان کے انقلابی شاعر حبیب جالب کی 20 ویں برسی آج عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے۔ اس حوالے دنیا بھر میں موجود ان کے چاہنے والوں اور ادبی حلقوں کی طرف سے ان کی ادبی خدمات کو خراج عقیدت پیش کی گیا۔

https://p.dw.com/p/17vg5
تصویر: Baask Wikipedia

حبیب جالب 28 فروری 1928ء کو متحدہ ہندوستان کے ضلع ہوشیار پور کے ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ اینگلو عریبک ہائی اسکول دہلی سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ انہوں نے 15 سال کی عمر سے ہی مشق سخن شروع کردی تھی ۔ ابتدا میں جگر مراد آبادی سے متاثر تھے اور روایتی غزلیں کہا کر تے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ کراچی آگئے اور کچھ عرصہ معروف کسان رہنما حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری تحریک میں کام کیا۔ یہی وہ دور تھا جب انہوں نے معاشرتی نا انصافیوں کو انتہائی قریب سے دیکھا اور محسوس کیا، ان کے یہ محسوسات ان کی نظموں کا موضوع بن گئے ۔

جی دیکھا ہے مر دیکھا ہے

ہم نے سب کچھ کر دیکھا ہے

ہم نے اس بستی میں جالب

جھوٹ کا اونچا سر دیکھا ہے

حبیب جالب نے 1956ء میں لاہور میں رہائش اختیار کی۔ اس دوران انہوں نے ایوب خان اور یحیٰی خان کے دور آمریت میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں اور وہ بنیادی طور پر کمیو نزم کے حامی تھے۔ انہیں مشہور پاکستانی فلم زرقا میں ’رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘ لکھنے پر شہرت حاصل ہوئی۔

حبیب جالب متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور ایک عام آدمی کے اندز میں سو چتے تھے۔ وہ پاکستان کے محنت کش طبقے کی زندگی میں تبدیلی کے آرزو مند رہے ،اور یہی وجہ رہی کہ وہ سماج کے ہر اُس پہلو سے لڑے جس میں آمریت کا رنگ جھلکتا تھا۔ وہ اپنی انقلابی سوچ کے تحت آخر دم تک سماج کے محکوم عوام کو اعلی طبقات کے استحصال سے نجات دلانے کا کام کرتے رہے۔

جہل کے آگے سر نہ جھکایا میں نے کبھی

سِفلوں کو اپنا نہ بنایا میں نے کبھی

دولت اور عہدوں کے بل پر جو اینٹھیں

ان لوگوں کو منہ نہ لگایا میں نے کبھی

میں نے چور کہا چوروں کو کھل کے سر محفل

دیکھ اے مستقبل

جالب اپنی انقلابی سوچ کے تحت آخر دم تک سماج کے محکوم عوام کو اعلی طبقات کے استحصال سے نجات دلانے کا کام کرتے رہے
جالب اپنی انقلابی سوچ کے تحت آخر دم تک سماج کے محکوم عوام کو اعلی طبقات کے استحصال سے نجات دلانے کا کام کرتے رہےتصویر: AP

حبیب جالب نے جو دیکھا اورجو محسوس کیا، نتائج کی پرواہ کیے بغیر اس کومن و عن اشعار میں ڈھال دیا۔ انہوں نے ہر دور کے جابر اور آمر حکمران کے سامنے کلمہ حق بیان کیا۔ حبیب جالب کے بے باک قلم نے ظلم، زیادتی، بے انصافی اور عدم مساوات کے حوالے سے جو لکھا وہ زبان زدِ عام ہو گیا۔

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے

چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے

وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے

ایسے دستور کو، صبح بےنور کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

وقت کے آمروں کو للکارنے والی ایک توانا آواز اور شاعر عوام حبیب جالب کو گزرے آج بیس برس بیت گئے لیکن ان کی انقلابی شاعری آج بھی تازہ ومعطر ہے۔ حبيب جالب کا زندگی بھر يہ الميہ رہا کہ وہ تاريکی کو روشنی اور باطل کو حق نہ کہہ سکے۔

ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

پتھر کو گُہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہُما کیا لکھنا

حق گو لوگوں کی قسمت میں راحت کہاں، تاریخی روایات کے عین مطابق حبيب جالب درباروں سے صعوبتيں اور کچے گھروں سے چاہتيں سميٹتا 12مارچ 1993 کو اس جہان فانی سے رخصت ہوا۔ اُن کی نظموں کے پانچ مجموعے ۔ برگ آوارہ ، سرمقتل ، عہد ستم ، ذکر بہتے خون کا اور گوشے میں قفس کے شائع ہو چکے ہیں۔

رپورٹ: زبیر بشیر

ادارت: افسر اعوان