1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ کی طرف سے میانمار کے لیے امددی رقوم کی اپیل

10 اگست 2012

اقوام متحدہ نے اپیل کی ہے کہ وہ میانمار کے لیے 32.5 ملین ڈالر کی امدادی رقوم مہیا کی جائیں۔ عالمی ادارے نے میانمار کی حکومت سے بھی کہا ہے کہ وہ متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کو مؤثر بنانے کے لیے مدد کرے۔

https://p.dw.com/p/15nRX
تصویر: DW/Shaikh Azizur Rahman

شمالی میانمار میں حکومتی سکیورٹی فورسز اور کاچین نامی نسلی قبیلے کے مابین حالیہ لڑائی اور مغربی میانمار میں بدھ کمیونٹی اور وہاں آباد کار مسلمانوں کے مابین نسلی و فرقہ ورانہ تناؤ کے نتیجے میں مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے آج جمعہ کے دن ان بے گھر افراد کی مدد کے لیے امدادی رقم کی اپیل کی ہے۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اقوام متحدہ کے انسانی امدادی امور کے ادارے کے ڈائریکٹر آپریشنز جان جِنگ کے حوالے سے بتایا ہے کہ میانمار کی حکومت سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ امدادی اداروں کو متاثرہ علاقوں اور افراد تک پہنچنے میں معاونت فراہم کرے تاکہ امدادی سرگرمیوں میں تیزی آ سکے۔

جان جِنگ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ان کی طرف سے کی جانے والی اپیل کے تناظر میں ڈونر ادارے فوری طور پر اپنا ردعمل ظاہر کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میانمار کی حکومت بھی ملک کی موجودہ صورتحال میں امدادی سرگرمیوں کو مؤثر بنانے کے لیے جلد ہی منصوبہ بندی مکمل کر لی گی۔

Soldat Myanmar Birma Regierung
ملکی فوج صورتحال بہتر بنانے کی کوشش میں ہےتصویر: Reuters

جان جِنگ نے میانمار کے دورے کے فوری بعد ہی میانمار کے لیے امدادی رقوم کی اپیل کی ہے۔ اس چار روزہ دورے کے دوران وہ ملک کی کاچین نامی ریاست کے علاوہ ریاست راکھین بھی گئے تھے۔

کاشین میں گزشتہ برس حکومتی فورسز اور کاچین کے باغیوں کے مابین شروع ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں کم از کم ساٹھ ہزارافراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ کاچین کے باغی گزشتہ پانچ دہائیوں سے اپنے آبائی علاقوں میں وسیع تر خود مختاری کے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اسی طرح راکھین میں مسلمانوں اور بدھ برداری کے مابین رواں برس جون میں شروع ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کے نتیجے میں جہاں کم ازکم 77 افراد مارے گئے وہیں 64 ہزار افراد اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور بھی ہوئے۔ اس ریاست میں روہنگیا نامی مسلمان نسلی گروپ کو نہ تو شہریت دی گئی ہے اور نہ ہی انہیں جائیداد کا کوئی حق حاصل ہے۔

ان حالیہ تنازعات کے باعث میانمار میں حکومت کی طرف سے کی جانے والی سیاسی اور اقتصادی اصلاحات پر بھی کئی سوالات اٹھ چکے ہیں۔ ایک طویل عرصے تک فوجی آمریت کے بعد وہاں شروع ہونے والے جمہوری دورکی وجہ سے مغربی ممالک نے میانمار پر عائد پابندیاں نرم کر دی ہیں۔

جان جِنگ کے بقول اگرچہ میانمار کی جمہوری حکومت کی طرف سے جاری اصلاحاتی عمل کی وجہ سے اقتصادی ترقی اور قیام امن کے حوالے سے اہم پیشرفت ہوئی ہے تاہم دوسری طرف نسلی فسادات کی وجہ سے پیدا ہونے والا تناؤ حکومت کی ان کوششوں کو منفی انداز سے اثر انداز کر سکتا ہے۔

ab/km (dpa)